جماعت و امامت کا بیان

غلط خواں کو امام بنانا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ بکر ایک مسجد کا امام ہے اور بچوں کو بھی پڑھاتا ہے لیکن اس کی قرأت صحیح نہیں تجوید کی رعایت نہیں کرتا ہے مثلاً ح کو ہ اور ض کو ظ اور کبھی ز پڑھتا ہے اور اسے نماز وغیرہ کے مسائل بھی معلوم نہیں ہیں تو کیا اس کے پیچھے نماز ہوجائے گی اور اسے منصب امامت پر برقرار رکھا جا سکتا ہے یا نہیں ؟
سائل: مولانا عابد رضا حشمتی جے جے کالونی بکرا والا نان گلوئی دہلی انڈیا


بسم ﷲ الرحمن الرحیم
الجواب-بعون الملک الوھاب- صورت مسئولہ میں بکر کے پیچھے نماز نادرست اور اسے امام بنانا ناجائزہے، بلکہ اس صورت میں اگر وہ تا حدِ ادنی امید دن رات تصحیحِ حروف میں کوششِ بلیغ نہ کرتا رہے، تو خود اس کی اپنی نماز بھی نہ ہوگی۔
امام اہلِ سنت اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز سے اس شخص کی امامت کے بارے میں سوال ہوا جو سورہ فاتحہ میں بجائے "الحمد” اور "الرحمن” اور "الرحیم” کے "الہمد” اور "الرھمٰن” اور "الرھیم” پڑھتا ہے تو آپ نے جواباً تحریر فرمایا: "اُسے امام بنانا ہرگز جائز نہیں اورنماز اس کے پیچھے نادرست ہے کہ اگر وہ شخص ح کے ادا پر بالفعل قادر ہے اور باوجود اس کے اپنی بے خیالی یا بے پروائی سے کلمات مذکورہ میں ھ پڑھتا ہے ۔تو خود اس کی نماز فاسد وباطل ،اوروں کی اسکے پیچھے کیا ہوسکے،اور اگر بالفعل ح پر قادر نہیں اور سیکھنے پر جان لڑاکر کوشش نہ کی تو بھی خود اس کی نماز محض اکارت ، اور اس کے پیچھےہر شخص کی باطل، اور اگر ایک ناکافی زمانہ تک کوشش کر چکا پھر چھوڑ دی جب بھی خود اس کی نماز پڑھی بے پڑھی سب ایک سی ، اور اُس کے صدقے میں سب کی گئی، اور اگر برابر حد درجہ کی کوشش کئے جاتا ہے مگر کسی طرح ح نہیں نکلتی تو اُس کاحکم مثل اُمّی کے ہے کہ اگر کسی صحیح پڑھنے والے کے پیچھے نماز مل سکے اور اقتداء نہ کرے بلکہ تنہا پڑھے تو بھی اسکی نماز باطل ، پھر امام ہونا تو دوسرا درجہ ہے” اھ (فتاوی رضویہ جدید، ج٦، ص٢٥٣، ٢٥٤، کتاب الصلاۃ ، باب القرأۃ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور) واللہ تعالیٰ ورسولہ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اعلم بالصواب

کتبہ گدائے حضور رئیس ملت محمد صدام حسین برکاتی فیضی میرانی
خادم میرانی دار الافتاء جامعہ فیضان اشرف رئیس العلوم اشرف نگر کھمبات شریف گجرات انڈیا
٢١ صفر المظفر ١٤٤٤ھ مطابق ١٩ ستمبر ٢٠٢٢ء