باطل فرقوں کا بیان حرمت نکاح

وہابی سے لڑکی کی شادی کرنا کیسا؟

زید نے اپنی بیٹی کی شادی وہابی کے لڑکے کے ساتھ کر دیا اس کے بعد جماعت کو جب یہ معلوم ہوا کہ وہابی کے یہاں زید نے اپنی بیٹی کی شادی کر دی تو جماعت نے زید کو بلایا اور کہا کہ اپنی بیٹی سے رشتہ ناتا توڑ دو نہیں تو جماعت آپ کو برادری سے بند کر دے گی جب زید کو معلوم ہوا کہ جماعت مجھے بند کر دے گی تو زید نے آکر جماعت کے سامنے توبہ کی اور اقرار کیا کہ نہ بیٹی کو لائے گا اور نہ ہی وہاں جائے گا پھر کچھ دنوں کے بعد زید سسرال سے بیٹی کو لے آیا اور اپنی توبہ سے مکر گیا اور پھر یہ کہتا ہے کہ بیٹی کو لے جا کے پوری جماعت کی رپورٹ کراؤں گا علمائے کرام مفتیان کرام کیا حکم فرماتے ہیں؟
سائلین: جماعت بڑگاؤں


بسم ﷲ الرحمن الرحیم
الجواب -بعون الملک الوھاب- وہابیوں دیوبندیوں کے عقائد کفریہ کی بناپر مدینہ طیبہ , مکہ معظمہ , ہندوستان و پاکستان و برما وغیرہ کے سینکڑوں علماء کرام و مفتیان عظام نے ان کے کافر و مرتد ہونے کا فتوی دیا ہے جس کی تفصیل حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ وغیرہ میں ہے اور مرتد و مرتدہ کا نکاح کسی سے نہیں ہوسکتا۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ” لايجوز للمرتد أن يتزوج مرتدۃ ولا مسلمۃ ولا کافرۃ اصلیۃ وکذلک لايجوز نکاح المرتدۃ مع احد کذا في المبسوط ” اھ (ج١, ص٣١٠, کتاب النکاح، باب المحرمات، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
یعنی مرتد کا نکاح کسی مرتدہ یا مسلمہ یا کافرہ اصلیہ سے جائز نہیں اور یونہی مرتدہ عورت کا کسی بھی شخص سے نکاح جائز نہیں. جیسا کہ مبسوط میں ہے۔
 فتاویٰ فیض الرسول میں ہے: ” وہابی دیوبندی تبلیغی اپنے عقائد باطلہ کی وجہ سے بحکم شرع بد مذہب گمراہ ہیں اور بدمذہبوں کے بارے میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں
  وان مرضوا فلا تعودوھم وان ماتوا فلا تشھدوھم وان لقیتموھم فلا تسلموا علیھم ولا تجالسوھم ولا تشاربوھم ولا تواکلوھم ولا تناکحوھم ولا تصلوا علیھم ولا تصلوا معھم
ترجمہ: اگر بدمذہب بد دین بیمار پڑیں تو ان کو پوچھنے نہ جاؤ اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازہ پر حاضر نہ ہو۔ اور ان کا سامنا ہو تو سلام نہ کرو۔ ان کے پاس نہ بیٹھو، ان کے ساتھ نہ پیو، ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ۔ ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے جنازہ کی نماز نہ پڑھو، ان کے ساتھ نماز نہ پڑھو۔
یہ حدیث شریف ابو داؤد، ابن ماجہ، عقیلی اور ابن حبان کی روایات کا مجموعہ ہے” اھ (فتاویٰ فیض الرسول ج ١ کتاب النکاح ص ٦٠٤)
لہذا صورت مسئولہ میں وہابی کا لڑکا بھی وہابی یعنی کافر و مرتد ہو تو اس سے زید کی لڑکی کا نکاح نہ ہوا اور زید نے دانستہ اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کیا تو وہ مرتکب کبیرہ مستحق عذاب نار اور دیوث ہے کہ اپنی بیٹی کو زنا کے لئے پیش کیا اس پر لازم ہے کہ سچی توبہ کرے اور اپنی بیٹی کو اس وہابی سے جدا کر کے کسی سنی صحیح العقیدہ لڑکے سے اس کا نکاح کرائے اور اگر وہ اپنے فعل بد پر مصر ہو اور حق قبول کرنے کے بجائے مسلمانوں کو دھمکی دے تو ضرور مسلمان اس سے ہر طرح کا رشتہ ناتہ توڑ دیں اور اس کا سخت سماجی بائیکاٹ کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ  فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ  الذِّکۡرٰی  مَعَ الۡقَوۡمِ  الظّٰلِمِیۡنَ‘‘ (سورة الانعام، پارہ ۷، آیت ۱۸)
اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ (ترجمہ کنزالایمان)
تفسیرات احمدیہ میں مذکورہ بالا آیت کے تحت ہے:’’الظالمين يعم الكافر والفاسق والمبتدع والقعود معهم ممتنع‘‘ اھ (تفسیرات احمدیہ،ص٣٦٣،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ہاں جماعت والوں کا زید سے یہ کہنا کہ "اپنی بیٹی سے رشتہ ناتا توڑ دو” صحیح نہیں وجہ یہ کہ زید کی لڑکی کا اس وہابی لڑکے کے ساتھ رہنا سخت حرام ہے اور زید پر فرض ہیکہ اپنی بیٹی کو اس سے جدا کرے نہ یہ کہ اس سے تعلقات توڑ کراسے گناہوں میں ڈوبی رہنے دے ۔ قرآن پاک میں ہے: "یٰۤاَیُّہَا  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا قُوۡۤا  اَنۡفُسَکُمۡ  وَ اَہۡلِیۡکُمۡ  نَارًا وَّ قُوۡدُہَا  النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ  عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ  غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ  اَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا  یُؤۡمَرُوۡنَ ” (سورة التحریم ٦٦: ٦)
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر سخت کرّے ( طاقتور ) فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں۔ (کنزالایمان) واللہ تعالیٰ ورسولہﷺ اعلم بالصواب

کتبہ گدائے حضور رئیس ملت محمد صدام حسین برکاتی فیضی میرانی
خادم میرانی دار الافتاء جامعہ فیضان اشرف رئیس العلوم اشرف نگر کھمبات شریف گجرات انڈیا۔
٢٦ صفر المظفر ١٤٤٤ھ مطابق ٢٤ ستمبر ٢٠٢٢ء
الجواب صحیح: مفتی محمد ارشد حسین الفیضی الامجدی