جماعت و امامت کا بیان روزہ

زید تراویح میں قرآن سنانے کے لیے روزہ نہیں رکھتا۔۔۔؟

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل میں زید ایک مسجد میں تراویح کی نماز میں قرآن سنا رہا ہے پر روزہ نہیں رکھتا پوچھنے پر بتایا کہ قرآن یاد کرنے میں بہت محنت لگتی ہے اور روزے کی حالت میں محنت نہیں ہو پاتی تو کیا زید کا ایسا کہنا درست ہے کیا زید کے پیچھے نماز ہو سکتی ہے جواب مفصّل و مدلل عطا فرمائیں مہربانی ہوگی۔
المستفتی: اویس رضا قادری، بدایوں شریف


بسم ﷲ الرحمن الرحیم
وعليكم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب۔

روزہ فرض عین ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے”کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون” اھ (سورۃالبقرۃ،الاٰیۃ:١٨٣)اور بلا عذر شرعی اس کا تارک مرتکب کبیرہ ومستحق عذاب نار ہے۔
اور تراویح سنت عین مؤکد. طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے”وھی سنۃ عین مؤکدۃ علی الرجال والنساء”اھ(ص٤١١۔٤١٢، کتاب الصلاۃ،فصل فی صلاۃ التراويح، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
اور تراویح میں ختم قرآن سنت کفایہ اور ترتیب مراتب میں پہلے فرض عین پھر فرض کفایہ پھر سنت عین مؤکد پھر سنت کفایہ یہ کیا ظلم ہے کہ سنت کفایہ کو فرض عین پر مقدم کردیا جائے کتنی بیوقوفی اور کم عقلی ہے کہ سنت کی خاطر فرض چھوڑ دیاجائے یہ دین سے برگشتگی بلکہ جھوٹا بہانہ سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ قرأت قرآن روزہ رکھنے سے مانع نہیں ہوسکتی ہزارہا حفاظ قرآن جن میں بوڑھے بچے کمزور شامل ہیں دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو قرآن سناتے ہیں اور کسی کو ایسا معاملہ نقصان دہ نہیں ہوا اور کیسے ہو سکتا ہے کہ روزہ بھی صحت ہے اور قرآن سراپا شفاء ہے ارشاد باری تعالی ہے” وننزل من القران ما ھو شفاء ورحمۃ للمومنین ولا یزید الظٰلمین الا خسارا” اھ(سورۃ الإسراء، الاٰیۃ:٨٢)
حدیث شریف میں ہے”قال صلی ﷲ علیہ وسلم اغزوا تغنموا وتصوموا تصحوا و سافروا تستغنوا” اھ(فتاویٰ رضویہ ج٤ص٥١٢، کتاب الصوم)
لیکن اعتقاد کا صحیح ہونا ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ یہ نفع فرمائے بہر حال کسی طرح بھی یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ اس شخص کو تلاوت قرآن روزہ رکھنے سے مانع ہے یہ صرف عذر باطل اور کم ہمتی ہے۔
اور اگر بالفرض کثرت تلاوت دور کی وجہ اتنا ضعف لاحق ہوجاتا ہے کہ اسے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہتی تو اس صورت میں اس کے لیے قرآن پڑھنا نہ سنت نہ باعثِ ثواب بلکہ حرام اور موجب عذاب ہے حافظ پر لازم ہے کہ یہ بوجھ اپنے سر نہ لے بلکہ دوسرے حافظ کی اقتداء کرے اور روزہ رکھے فرض بجا لائے اور سنت بھی ادا کرے علماء نے مطلقاً فرمایا ہے کہ جو بھی عمل روزہ رکھنے سے کمزور کرے یا مانع ہو وہ جائز نہیں۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے”علماء مطلقاً فرمودہ اند ہر عملے کہ ضعیف واز روزہ باز دارد روا نیست، فی الدرالمختار، لایجوز ان یعمل عملا یصل بہ الی الضعف” اھ(ج٤ص٥١٢، کتاب الصوم)
اسی میں ہے”ختم قرآن در تراویح سنت کفایہ است وسنت کفایہ از سنت عین مؤخر ایں چہ ستم وبے خردی باشک کہ سنت کفایہ بر فرض عین مقدم دارند”اھ اور اسی کے چند سطر کے بعد اعلیحضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں” قلت فانظر الی جھل ھذا الذی یترک صوم رمضان لشئی یرخص فی ترکہ لمثل ھذا”اھ ملخصاً(ج٤ص٥١٣،٥١٢،کتاب الصوم)
بالجملہ یہ شخص باجماع علماء فاسق، فاجر، مرتکب کبیرہ، عذاب الیم اور ذلت عظیم کا مستحق ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ دو وجوہ کی بنا پر ایسے شخص کو تراویح نہ پڑھانے دیں اولا یہ فاسق ہے اور فاسق کی اقتداء میں نماز مکروہ ہوتی ہے جیسا کہ اس پر متون وشروح وفتاوی کی قطعی تصریحات ہیں ثانیاً غالب گمان یہ ہے کہ یہ شخص انتہائی درجہ کا کم ہمت اور امور دینیہ کے معاملے میں بدذوق ہے ایسے شخص سے قرآن پڑھوانا گناہ عظیم ہے اور اقتداء کی صورت میں مقتدی گناہ پر اعانت کرنے والے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے”تعاونوا علی البر والتقوى و لا تعاونوا علی الاثم والعدوان” اھ (سورۃ المائدۃ،الاٰیۃ:٢)
فتاویٰ رضویہ میں ہے”ایں قرآن خوانی ازاں کس گناہ عظیم است ومقتدیان باقتداء خود اعانت برگناہ می کنند پس خود آثم باشد”اھ (ج٤ ص٥١٥، کتاب الصوم)
غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی میں ہے "لو قدموا فاسقا یاثمون بناء علی ان کراھۃ تقدیمہ کراھۃ تحریم لعدم اعتنائہ بأمور دینہ وتساھلہ فی الاتیان بلوازمہ فلایبعد منہ الاخلال ببعض شروط الصلاۃ وفعل ما ینافیھا بل ھو الغالب بالنظر الی فسقہ ولذا لم تجز الصلاۃ خلفہ اصلا” اھ(ص٥١٣،کتاب الصلاۃ)
ہاں اگر اپنے اس فعل شنیع سے باز آجائے اور روزے پر مداومت کرنے لگے تو پھر اس کے پیچھے نماز پڑھنی درست ہوجائے گی. وﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:محمد ارشد حسین الفیضی
٢٠ رمضان المبارک ١٤٤٣ھ