طلاق کے مسائل

طلاق رجعی دینے کے بعد فون پر رجعت کرنا کیسا؟ کیا رجعت میں گواہ ضروری ہیں

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی دی اور وہ بیرون ملک ہے اور اس نے فون پر ہی اپنی بیوی سے کہا کہ میں اللہ اور اس کے رسول کو حاضر وناظر مان کر اپنا طلاق واپس لیتا ہوں اور تم کو اپنی بیوی تسلیم کرتا ہوں تو کیا رجوع ہوگیا یا نہیں اور کیا رجوع کے وقت گواہوں کا ہونا ضروری ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں؟
سائل: محمد عاقب رضا فیضی سیتا مڑھی بہار انڈیا


بسم ﷲ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام و رحمۃاللہ تعالیٰ وبرکاتہ
الجواب -بعون الملک الوھاب-صورت مستفسرہ میں رجوع ہوگیا اور رجوع کے وقت گواہوں کا ہونا ضروری نہیں کہ بغیر گواہوں کے بھی رجوع ہوسکتا ہے ہاں بغیر گواہوں کے رجعت کرنا مکروہ ہے۔
جوہرہ نیرہ میں ہے: "قوله (راجعت امراتي) في الحضرة والغيبة ثم الرجعۃ علي ضربين سني وبدعي فالسني ان يراجعها بالقول ويشهد علي رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فان راجعها بالقول… ولم يشهد بذلك او اشهد ولم يعلمها بذلك فهو مخالف للسنة والرجعة صحيحة ” اھ ملخصا (ج٢, ص١٩٧, کتاب الرجعۃ, دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
یعنی میں نے اپنی بیوی سے رجوع کیا یہ لفظ بیوی کی موجودگی اور غیر موجودگی دونوں صورتوں کے لئے ہے اور رجعت کی دوقسمیں ہیں (١)رجعت سنت (٢)رجعت بدعت۔ رجعت سنت یہ ہے کہ بیوی سے قول سے رجعت کرے اور اس پر دو لوگوں کو گواہ بنالے اور بیوی کو بتادے کہ میں نے رجعت کرلیا ہے پس اگر قول سے رجعت کی اور کسی کو اس پر گواہ نہیں بنایا یا گواہ تو بنایا مگر بیوی کو نہیں بتایا تو یہ سنت کے خلاف ہے لیکن رجعت صحیح ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ گدائے حضور رئیس ملت محمد صدام حسین برکاتی فیضی میرانی
خادم میرانی دار الافتاء جامعہ فیضان اشرف رئیس العلوم اشرف نگر کھمبات شریف گجرات انڈیا۔
١٩ رمضان المبارک ١٤٤٣ھ مطابق ٢١ اپریل ٢٠٢٢ء