کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں
علماء دیوبند کے متعلق جو فتویٰ سیدی پیر مہرعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کہ علماء دیوبند اہل سنت کا عظیم فرقہ ہے یا خواجہ غلام فرید نے اکابرین دیوبند مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی محمد قاسم نانوتوی کے ولی کامل ہونے کا فتوی ” مقابیس المجالس ” میں دیا ہے واقعی ان بزرگان دین کی کتابوں میں یہ فتاویٰ جات مسطور ہیں اور صحیح ہیں پیر شرقپوی نے نوری کہا ہے۔ باقی سیدی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی کفر لاعلمی کی بناپر تھا جب علماء دیوبند کی کتب المہمند وغیرہ جیسی کتابیں منظر عام پر آئیں تو اعلی حضرت فاضل بریلوی نے اپنے فتویٰ کفر سے رجوع فرماکر تمھید الایمان اورسبحان السبوح وغیرہ میں صاف الفاظ میں لکھ دیاکہ حاشاللہ حاشاللہ ہزار بار حاشاللہ میں ہرگز ان علماء دیوبند کی تکفیر نہیں کرتا یعنی مولوی رشید احمد گنگوہی اورمولوی خلیل احمد اور مولوی اشرف علی تھانوی وغیرہ کو تو مسلمان ہی جانتا ہوں اورمولوی اسماعیل دہلوی پر بھی کفر کا فتویٰ نہیں دیتا یہ اعلیٰ حضرت بریلوی کا وہ آخری فتوی ہے جس پر مہر حق ثبت کرتے ہوئے سیدی وسندی قبلہ مولوی احمد سعید شاہ صاحب کا ظمی نے الحق المبین میں فتویٰ دیاہے کہ ہمارےاکابرین علماء بریلوی نے کبھی بھی علماء دیوبند کو نہ کافر کہا اور نہ کسی کتاب میں ان کو کافر لکھا ہے بلکہ ہم ان کو سنی علماء ہی مانتے ہیں۔
کیا یہ بات صحیح ہیں کیا واقعی ایسا ہے جواب ارشاد فرماۓ۔ ۔، سائل غلام رضا
السلام علیکم و رحمتہ اللہ
الجواب ھو الھادی الی الصواب
یہ ساری باتیں سراسر جھوٹ ہیں یہ تحریر میں نے نیٹ پر بھی دیکھی ہے اور کچھ گروپس میں بھی دیکھی ہے لوگوں نے اس کے متعلق سوال کیا تھا۔۔ ایسا معلوم ہر رہا ہے جیسے کی یہ تحریر Viral ہو رہی ہے۔ بہر حال اس تحریر میں جو کچھ کہا گیا ہے سب جھوٹ ہے عبارات اپنے مطلب کی بناکر اپنا الو سیدھا کرنے کی نا کام کوشش کی ہے صحیح تو یہ ہے سیدی پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ نے اپنی کتب میں اہل دیوبند اور وہابیوں کا جگہ جگہ رد کیا ہے اور دیوبندیوں کی تکفیر بھی کی ہے اپ رحمہ اللہ دیوبندیوں کا رد کرتے ہوۓ فرماتے ہیں۔۔
نبی علیہ السلام کو علم غیب حاصل ہے آپ علیہ السلام کو علم غیب بحسب نصوص قرانیہ اور علم ما کان وما یکون از روۓ احادیث نبویہ یہ من جانب اللہ عطا ہوا ہے۔،نبی علیہ السلام کے حاضر ناظر ہونے کے متعلق فرماتے ہیں۔
رہا آپ علیہ السلام کا بالجسد العنصری ہر مکان و ہر زمان میں حاضر و ناظر ہونا تو یہ امر مخلف فیہ ہے قائل و منکر و لکل وجھتہ میرے خیال میں ظہور و سریان حقیقت احمدیہ کہر عالم و ہر مرتبہ اور ہر ذرہ ذرہ میں عند المحققین من الصوفیہ ثابت ہے
فتاوی مہریہ صفحہ 6۔۔
جب دیوبندی وہابیوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلاف و فتنہ برپا کیا توسل نزر و نیاز سماع موتی اور علم غیب وغیرہ مان نے والے مسلمانوں پر کفر و شرک کے فتوے لگاۓ گۓ تب امت پر ایک اور احسان فرمایا اور ایک کتاب اس امت کو عطا فرمائی جس کا نام ہے
اعلاء کلمتہ اللہ فی بیان وما اھل بہ لغیر اللہ۔ جس کو پڑھنے کے بعد ایک انصاف پسند شخص تسلیم کیۓ بنا نہیں رہ سکتا۔،
حضرت مولانا غلام محمد سے پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ نے پوچھا کہ غلام محمد لوگوں میں مشہور ہے کہ دیوبندیوں کی کتابیں گستاخیوں سے بھری پڑی ہیں کیا یہ بات صحیح ہے ۔ تو جوابا میں نے عرض کی حضور واقعی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جنکے متعلق فاضل بریلوی اعلی حضرت اور علمائے حرمین نے کفر کا فتوی دیا ہے یہ صحیح ہے اور واقعی یہ توہین آمیز عبارتیں ہیں۔ تو حضرت پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ نے فرمایا پھر تو ایسی باتیں واقعی کفریہ ہیں اور فتاوی صحیح ہیں۔ (درج الالی فی حیات شاہ جمالی صفحہ 106)
ان عبارات سے معلوم ہوا سیدی پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ نے وہابیوں دیوبندیوں کے عقائد باطلہ کا رد کیا ہے ۔ اور امام اہلسنت علمائے حرمین کے فتاوی کو صحیح ٹھرایا ،۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ نے دیوبندیوں کا رد نہیں کیا ان کی تکفیر نہیں کی وہ لوگ پیر صاحب کی کتب سے یہ ثابت کریں اور اس کا بھی جواب دیں دیوبندی جن امور پر کفر شرک کا فتوی لگاتے ہیں مثلاً نیاز فاتحہ سمع موتی حاضر ناظر ما کان وما یکون علم غیب توسل وغیرہ کو پیر صاحب نے اپنی کتب و فتاوی میں دلائل کے ساتھ اس کو ثابت کیوں کیا اور ان کے منکروں کا رد کیوں کیا۔مزید اپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔۔
فرقہ وہابیہ نجدیہ کا آباعن جد آبا و اجداد سے یہی شیوہ و شعار رہا ہے کے مستحسنات بزرگان دین کو بدعت سیہ ضلالت کفر و شرک کہ دیتے ہیں۔ (فتاوی مہریہ صفحہ 33)
اب رہا یہ کہ آپ رحمہ اللہ نے اہل دیوبند کو اہلسنت کا عظیم فرقہ قرار دیا ہے تو یہ بھی سراسر جھوٹ ہے۔ اس طرح کہنے والے نے منافقت سے کام لیا ہے۔ فتاوی مہریہ میں ہے اپ رحمہ اللہ سے سوال ہوا نبی پاک کے لیۓ لفظ بشر کا اطلاق جائز ہے یا نہیں چونکہ بعض جائز کہتے ہیں بعض ناجائز
۔ آپ نے اس کا تفصیلی جواب لکھا اور فرمایا میرے خیال میں فرقین از علمائے کرام متنازعین اہلسنت سے ہیں اور ذکر نبی علیہ السلام کو بالاسماء المعظمہ واجب اور ضروری اعتقاد کرتے ہیں۔۔ اس مقام پر پیر صاحب نے فرمایا دونوں فریقین قین اہلسنت کے ہیں اب چونکہ وہابی دیوبندی نبی پاک کو صرف بشر کہتے ہیں تو خیانت کرنے والوں نے یہ منافقت دکھائی یہاں دونوں فریقین سے دیوبندی مراد لے لیا چونکہ وہ نبی کو صرف بشر کہتے ہیں۔ حالانکہ یہاں تو دیوبندی وہانبی کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ اپ رحمہ اللہ نے اس کے آگے خود یہ فرمایا اور وہابیوں کا رد کیا فرماتے ہیں۔ لہزا ان سے ہر گز ہر گز متصور نہیں کہ معاذ اللہ فرقہ ضالہ نجدیہ وہابیہ کی طرح صرف لفظ بشر کا اطلاق جائز کہیں۔ البتہ ان کا خیال ہے بقصد تحقیر لفظ بشر کا اطلاق بغیر انضمام کلمات تعطیم نہ چاہیے کہ بوجہ شیوع عرف وقصد فرقہ ضالہ صرف بشر کہنے میں ایہام امر ناجائز کا ہے،۔
یہاں تو خود پیر صاحب نے دیوبندیوں وہابیوں کا رد فرمایا ہے اللہ کریم انہیں مارے کے جہنم میں جا گرے پیر صاحب کی عبارت کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیۓ توڑ مروڑ کر جھوٹی بات کی نسبت آپ رحمہ اللہ کی طرف کرد ہے ،۔
اور یہ بھی جھوٹ و فریب ہے کہ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب نے دیوبندیوں کے اکابر کو ولی کامل کہا ہے۔ بلکہ غلام فرید صاحب نے اہل دیوبند کے نظریات کا رد کیا ہے جن امور کو دیوبندی ناجائز یا حرام شرک کہتے ہیں آپ نے ان کا رد کیا ہے ۔
حاجی امداداللہ محاجر مکی کا فتوی نقل فرماتے ہیں۔
فقیر کا یہ امر ہے ہر سال اپنے پیر مرشد کی ورح کو ایصال ثواب کرتا ہوں قرآن خوانی ہوتی ہے اگر وقت میں وسعت ہو تو میلاد شریف بھی ہوتا ہے اس میں میلاد کا جواز نکل آیا ۔
اور بلا مزامیر کے سمع ہوتا ہے سنا اور سنایا جاتا ہے پھر کھانا کھلایا جاتا ہے اس سے عرس پر طعام پکانے اور فاتحہ دلانے کا جواز نکل آیا ہے جس سے آج کل کے دیوبندیوں کی آنکھیں کھولنے والی چیز ہے کیونکہ آج کل کے دیوبندی نہ عرس کے قائل ہیں نہ میلاد کے نہ فاتحہ کے نہ سماع بغیر آلات کے حالانکہ دیوبند کے بانی اور علماء
دیوبند کے پیر و مرشد کے نزدیک یہ تمام امور جائز ہیں۔ اسی صفحہ پر آگے فرماتے ہیں۔
کاش کے آج کل کے دیوبندی دارالعلوم دیوبند کے بانی مبانی اور اکابر دیوبند کے پیر و مرشد کے فتوی پر عمل کرتے اور خواہ مخواہ سماع اور اہل سماع پر اعتراضات کی بارش سے پرہیز کرتے۔،
مقابیس المجالس صفحہ 172
خواجہ غلام فرید صاحب نے اہل دیوبند اور وہابیوں کا جگہ بہ جگہ رد کیا ہے یہ کہنا نہایت ہی عظیم جرم ہے کہ آپ نے علمائے دیوبند کو ولی کامل کہا ہے۔ مقابیس المجالس میں یہ بات لکھی ہوئی ہے حاجی امداد اللہ صاحب کے رشید احمد گنگوہی مرید اور خلیفہ اکبر تھے۔ اس عبارت سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ ولی کامل تھے میں کہتا ہوں اگر اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہوتا کہ گنگوہی اور قاسم نانوتوی ولی کامل غوث ابدال میں سے ہیں وقت کے مجدد تھے تب بھی یہ بات لائق اعتبار نہ ہوتی چونکہ مقابیس المجالس نہایت ہی غیر معتبر کتاب ہے اس کتاب میں زبردست تحریف کی گئ ہے چند عبارات ہیش نظر کرتا ہوں۔
جسے دیکھ کر یقین ہی نہیں یقین کامل حاصل ہو جاۓ گا کہ یہ تحریف شدہ کتاب ہے۔
صفحہ 796 پر ہے سر سید احمد کس قسم کا آدمی ہے فرمایا نہایت ہی اچھے آدمی تھے ان کے چہرے سے برکت ٹپکتی تھی۔۔ میں کہتا ہوں مجھے بتاۓ کونسی برکت اس کے چہرے سے ٹپکتی تھی جب کی وہ اپنے نظریات و عقائد باطلہ کی وجہ سے کافر ہے
امام اہلسنت نے سر سید احمد کو کافر کہا ہے خود دیوبندیوں کا سر سید احمد پر کفر کا فتوی ہے تو کیا اس عبارت سے سر سید کے ولی کامل ہونا مانا جاۓ گا؟
اسی صفحہ کے نیچے لکھا ہے
توحید کے بارے میں وہابیوں کے عقائد صوفیاء کرام سے ملتے جھلتے ہیں۔ وہابی کہتے ہیں انبیاء اور اولیاء سے مدد مانگنا شرک ہے بیشک غیرے خدا سے امداد مانگنا شرک ہے توحید یہ ہے کہ خاص اللہ سے مدد طلب کی جائے ۔ اب ذرا بتائیں وہابیوں کے کونسے عقائد صوفیاء سے ملتے ہیں اگر وہابیوں کے عقائد صوفیاء سے ملتے ہوتے تو وہابی صوفیاء کو مشرک کیوں کہتے صوفیاء تو انبیاء اولیاء سے مدد طلب کرتے ہیں صوفیاء تو نہیں کہتے ان سے مدد طلب کرنا شرک ہے۔ تو پھر وہابیوں کے عقائد صوفیاء سے کہا سے ملتے جھلتے ہیں۔۔
اسی صفحہ پر یہ لکھا ہے
حضور لوگ مولوی نذیر حسین کو غیر مقلد اور وہابی کہتے ہیں وہ کیسے آدمی تھے۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ وہ تو ایک صحابی معلوم ہوتے ہیں۔۔
میں کہتا ہوں کسی عام آدمی کو یا مولوی کو یہ کہنا کے وہ صاحبی معلوم ہوتے ہیں گستاخی نہیں تو اور کیا ہے۔ کوئی مولوی کتنے ہی علم و فن میں ماہر کیوں نہ ہو مقام غوثیت پر فائز کیوں نہ ہو صحابی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا تو پھر یہ کیسے صحابی کی طرح ہو سکتا ہے۔۔
صفحہ 388 پر لکھا ہے سری کرشن جی اور رام چندر صاحب فقیر اور درویس تھے یا نہیں۔
تو آپ نے فرمایا تمام اوتار اور رشی لوگ اپنے اپنے وقت کے پیغمبر تھے اور نبی تھے اور ان میں سے ہر ایک کے
پاس کتاب ہے چنانچہ چار وید زبان سنسکرت میں اب بھی موجود ہیں اور ان میں سے ہر نبی لوگوں کی رسومات توڑنے کے لیۓ مبعوث ہوۓ ۔تھوڑا آگے جاکر اسی صفحہ پر لکھا ہے پھر مہاتما بدھ مبعوث ہوۓ
جب گاو پرستی کی رسم پکڑ گئ تو سری کرشن جی مبعوث ہوۓ جنہوں نے گاو پرستی کو ختم کیا
اور صفحہ 390 پر لکھا ہے ۔
ان لوگوں میں اگرچہ عادات اور عبادات کے فروغ میں اختلاف ہے لیکن اصل سبب ایک ہے یعنی رجوع الی اللہ اور توحید۔۔
میں کہتا ہوں رام چندر کرشن اور گوتم بدھ کو نبی کہنا یہ گمراہیت نہیں تو اور کیا ہے ان ویدوں کو آسمانی کتاب اور رشییوں کو پیغمبر کہنے والوں کا ایمان خطرہ میں ہے پہلے تو یہی نہیں معلوم یہ انسان تھے بھی یا نہیں ان کا وجود تھا بھی یا نہیں محض لوگ ان کو اس لیۓ جانتے ہیں ہنود ان کی پوجا کرتے ہیں۔
کیا آپ کے پاس وحی آئ ہے کہ یہ انسان نبی تھے کیونکہ کسی نبی کا نبی ہونا اسی وقت مانا جا سکتا ہے جس کا ذکر قرآن حدیث میں ہو دلیل قطعی سے جس کی نبوت واضح ہو جاۓ ۔ ان کے نبی ہونے پر کون سی دلیل قائم ہے کیا ان کا ذکر قرآن حدیث میں آیا ہے اگر نہیں تو پھر ان کو نبی کہنا وہ بھی صرف اس وجہ سے ہنود ان کی پوجا کرتے ہیں یہ تو کھلی ہوئی ہنود کی حمایت اور وکالت کرنے کے مترادف ہے۔ ہنود تو ان کو انسان تک نہیں مانتے کیا آپ نے نہیں دیکھا کسی کی دم ہے تو کسی کا ہاتھی کا سر ہے تو کوئی بندر ہے کسی کے چار تو کسی کے چھے ہاتھ پیر ہیں۔ اس طرح کی شکلیں انسان کی نہیں ہوا کرتی اور یہ عادات الٰہی اور عقل کے خلاف ہے اللہ تو قرآن میں فرماتا ہے ہم نے انسان کو اچھی شکل پر پیدا کیا ہے۔ ہنود تو ان کو جانور مانے
اور اپ نبی کیسے مان سکتے ہیں۔
امام اہلسنت فرماتے ہیں۔۔
قران کریم یا حدیث کریم میں رام کرشن کا ذکر تک نہیں ہے ان کے نفس وجود پر سواۓ تواتر ہنود ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں کہ واقع میں کچھ اشخاص تھے بھی یا محض انیاب اغوال و رجال بوستاں خیال کی طرح اوہام تراشیدہ ہیں۔ تواتر ہنود اگر حجت نہیں تو انکا وجود ہی ناثابت اور اگر حجت ہے تو اسی تواتر سے ان کا فسق فجور لہو و لعیب ثابت پھر کیا معنی کے وجود کے لیۓ تواتر ہنود مقبول اور احوال کے لیۓ مردود مانا جاۓ اور انہیں کامل و مکمل بلکہ ظنا معاذ اللہ انبیاء و رسل مانا جاۓ
فتاوی رضویہ 14 جلد صفحہ 660۔۔
فتاوی فقیہ ملت صفحہ 24 پر ہے رام کرشن گوتم بدھ وغیرہ ہرگز نبی نہیں انہیں نبی رسول خیال کرنا سخت گمراہی جہالت ہے۔۔
یہ چند عبارات بطور نمونہ فقیر نے اسی کتاب سے پیش نظر کی ہیں جس کتاب سے علمائے دیوبند کے ولی کامل ہونے کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے اب ذرا بتاۓ وہ لوگ جو بطور حوالہ اس کتاب کو پیس کرتے ہیں کیا اب ان ساری عبارتوں کی بھی تصدیق کریں گے اگر نہیں تو پھر اپنے مطلب کی بات کیوں مانتے ہو کیا بعض کی تصدیق کرتے ہو اور بعض کا انکار۔ میں نے بطور نمونہ چند عبارات پیس نظر کی ہیں اگر اس پر کلام کیا جاۓ تو وجود میں ایک کتاب آجاۓ۔ نیز اب یہ بات بھی روز روشن کی طرح ظاہر ہو گئ کہ اس کتاب میں کتنی زبردست تحریف کی گئ ہے اس لیۓ یہ کتاب غیر معتبر ہے ۔ ساتھ ہی جو لوگ اس کتاب سے علمائے دیوبند کے ولی کامل ہونے کی دلیل پکڑتے ہیں ان کی دلیل کے بھی پرخچے اڑ گۓ ہیں۔
یہ بات بھی سراسر جھوت و فریب ہے کہ امام اہلسنت نے اپنے فتوے سے رجوع کرلیا تھا ۔
اس عبارت میں قطع بریدی سے کام لیا گیا ہے در اصل بات یہ ہے کہ امام اہلسنت پر لوگوں نے یہ الزام لگایا کہ احمد رضا فلاں فلاں کو کافر کہتے ہیں۔ تو اس کے جواب میں امام اہلسنت نے فرمایا۔ یہی دشنامی لوگ جن کے کفر پر اب فتوی دیا ہے جب تک ان کی صریح دشنامیوں پر اطلاع نہ تھی، مسئلہ امکان کذب کے باعث ان پر 78 اٹھتر وجہ سے لزوم کفر ثابت کر کے سبحان السبوح میں بالآخر صفحہ 80 طبع اول پر یہی لکھا کہ حاشاللہ حاشاللہ ہزار بار حاشاللہ میں ہر گز ان کی تکفیر ہر گز پسند نہیں کرتا، ان مقتدیوں یعنی مدعیان جدید کو تو ابھی تک مسلمان ہی جانتا ہوں اگرچہ ان کی بدعت و ضلالت میں شک نہیں
تمہید ایمان صفحہ 132۔
یہ سب امام اہلسنت نے ان لوگوں کے جواب میں فرمایا ہے جو لوگ یہ کہتے تھے احمد رضا تو فلاں فلاں کو کافر کہتے ہیں۔
یعنی علمائے دیوبند کی میں نے تکفیر اس وقت تک نہ کی جب تک مجھے ان کی گستاخیوں کا قطعی علم حاصل نہ ہو گیا جبکہ امکان کذب کے باعث 78 وجہ سے لزوم کفر ثابت کر کے آخر یہی لکھا میں ہر گز ان کی تکفیر نہیں کرتا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کا کفر علم یقین سے حاصل نہ ہوگیا اور جب علم قطعی سے حاصل ہو گیا اور کوئی تاویل کی گنجائش نہ رہی
تو میں نے تکفیر کی ہے بلا وجہ میں نے کسی کو کافر نہیں کہا ۔
سبحان اللہ امام اہلسنت نے یہاں علمائے متکلمین کا طریقہ اپنایا ہے اور کفر کا فتوی اس وقت تک نہ دیا جب تک ضعیف سے ضعیف تاویل کی گنجائش تھی کیوں کہ ہمیں یہی حکم ہے اہل قبلہ کی تکفیر نہ کی جاۓ جب تک ضروریات دین کا انکار لازم نہ آتا ہو۔، دیوبندیوں کو امام اہلسنت کا یہ فتوی انکھیں کھول کر پڑھنا چاہئے کہ دیوبندی ہر دوسری بات پر مسلمانوں پر شرک کفر کا فتوی لگاتے ہیں۔ لیکن اعلی حضرت نے کتنی احتیاط برتی تمہارے اسماعیل دہلوی کی تکفیر کلامی نہ کی اور تمہارے دیگر علمائے دیوبند کی بھی اس وقت تک تکفیر نہ کی جب تک علم قطعی سے کفر ثابت نہ ہو گیا ۔ لیکن دیوبندیوں تمہارا حال تو یہ ہے اگر انبیاء یا اولیاء سے مدد طلب کی جاۓ تو تم فوراً مسلمان کو مشرک بنادیتے ہوں۔، بجائے امام اہلسنت کا شکر ادا کرنے کے ان کی عبارات میں قطع برید کر کے لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہو۔ بتاؤ اس عبارت میں کہا لکھا ہے وہ جو مطلب تم نے بیان کیا۔۔
سعید احمد کاظمی صاحب کا موقف بھی وہی ہے جو امام اہلسنت کا ہے اپ فرماتے ہیں۔ جو کوئ اپنے قول یا فعل سے التزام کفر کرے گا ہم اس کی تکفیر میں تامل نہیں کریں گے خواہ وہ دیوبندی ہو یا بریلوی مزید فرماتے ہیں
ہمارے علماء نے بارہا اعلان کیا ہے کہ ہم کسی دیوبند یا لکھنؤ والے کو کافر نہیں کہتے ہمارے نزدیک صرف وہی لوگ کافر ہیں جنہوں نے اللہ و رسول کی شان میں گستاخیاں کیں اور باوجود تنبیہ شدید کے انہوں نے اپنی گستاخیوں سے توبہ نہیں کی نیز وہ لوگ جو ان کی گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں اور گستاخیاں کرنے والوں کو مومن اہل حق اپنا مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں ان کے علاوہ ہم نے کسی مدعی السلام کی تکفیر نہیں کی
الحق المبین صفحہ 25
اس سے سعید احمد کاظمی صاحب کا موقف بھی بالکل واضح ہے ان کا بھی وہی موقف ہے جو امام اہلسنت کا یعنی علمائے دیوبند میں جن جن نے گستاخیاں کی ہیں وہ سب کے سب کافر ہیں ان کی ہم تکفیر کرتے ہیں۔،
واللہ اعلم بالصواب
فقیر محمد دانش حنفی
ہلدوانی نینیتال، 9917420179