باطل فرقوں کا بیان غیر مسلموں سے موالات وقف کا بیان

وہابی سے چندہ لینا اس کے لئے دعا کرنا اسے مسجد و مدرسہ میں لگانا کیسا؟

(١) کسی وہابی نے چندہ دیا امام نے اس کو لے لیا اور مسجد میں اعلان کردیا کہ فلاں وہابی نے اتنا پیسہ دیا ہے اور اس کے لئے دعا بھی کی تو اس امام کے لئے کیا حکم ہے ؟
(٢) مسجد اور مدرسہ میں وہابی کا پیسہ لگانا کیسا ہے؟
سائل: قاری عرفان استاذ صدر العلوم پپرولی گورکھ پور یوپی انڈیا


بسم ﷲ الرحمن الرحیم
الجواب -بعون الملک الوھاب- (١) وہابیہ و دیابنہ اپنے عقائد کفریہ کے سبب کافر و مرتد، ہیں اس کا روشن بیان الکوکبۃ الشہابیہ اور النہی الاکید وغیرہ میں ہے علماء حرمین شریفین نے تو ان کے متعلق یہاں تک ارشاد فرمایا:’’من شك في كفره وعذابه فقد كفر‘‘۔ یعنی جو شخص ان کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ خود بھی کافر ہے۔
اور مرتد سے سلام کرنا اس سے کچھ لینا یا دینا اس کے لئے دعا کرنا ، ناجائز و حرام ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’وَ اِمَّا یُنۡسِیَنَّکَ الشَّیۡطٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ الذِّکۡرٰی مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ‘‘(سورة الانعام، پارہ ۷، آیت ۱۸)
اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ (ترجمہ کنزالایمان)
تفسیرات احمدیہ میں مذکورہ بالا آیت کے تحت ہے:’’الظالمين يعم الكافر والفاسق والمبتدع والقعود معهم ممتنع‘‘(تفسیرات احمدیہ،ص٣٦٣،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
یعنی "الظالمین” کا لفظ کافر فاسق بدعتی سب کو عام ہے اور ان کے ساتھ بیٹھنا ممتنع ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ” فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ، لَا يُضِلُّونَكُمْ وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ ” اھ (صحيح مسلم الْمُقَدِّمَةُ رقم الحدیث ٧ ، بَابٌ النَّهْيُ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنِ الضُّعَفَاءِ وَالْاحْتِيَاطُ فِي تَحَمُّلِهَا)
یعنی بدمذہبوں سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں گمراہ کردیں اور فتنہ میں نہ ڈال دیں۔
تاج دارِ اہلِ سنت حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:’’جو مرتدین ہیں نیچری وہابی دیوبندی قادیانی رافضی ان سے میل جول رسم و راہ کیسی،نری معاملت بھی حرام ہے‘‘۔(فتاویٰ مفتی اعظم ہند، ج٥، ص٣٣٧، امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف)
لہذا صورت مسئولہ میں امام نے وہابی جان کر اس سے چندہ لیا اور اس کے لئے دعا کی تو وہ مرتکب کبیرہ فاسق معلن ہے اس پر اعلانیہ توبہ لازم ہے جب تک توبہ نہ کرے اسے امام بنانا گناہ اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی پڑھ لی گئی تو دہرانی واجب ہے۔
شرح العقائد میں ہے : "لو قدموا فاسقا ياثمون "اھ. (ص٤٧٩)
یعنی لوگ فاسق کو امام بنائیں تو گناہ گار ہوں گے ۔
درمختارمع ردالمحتارمیں ہے ” کل صلاۃ أدیت مع كراهة التحريمة تجب اعادتھا ” اھ(ج :٢ ص: ١٤٧/١٤٨ ، کتاب الصلاة ، باب صفۃ الصلاۃ)
یعنی ہر وہ نماز جو کراہت تحریمہ کے ساتھ ادا کی گئی اس کا دہرا نا واجب ہے ۔
اعلي حضرت رضي الله تعالي عنه تحریر فرماتے ہیں: "فاسق کے پیچھے نماز ناقص ومکروہ اگر پڑھ لی تو پھیری جائے اگرچہ مدت گزرچکی ہو و لہذا اسے ہر گز امام نہ کیا جائے ” اھ (فتاوی رضویہ جدید ج٦ ص٣٩٠ ، باب الامامة ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور )
(٢) وہابی کا پیسہ مسجد یا مدرسہ میں لگانا نہ چاہئے۔
فتاویٰ بحر العلوم میں ہے : "دیوبندیوں وہابیوں سے چندہ مانگنا نہ چاہیے از خود دے تو مسجد میں لگانا نہ چاہیے۔ اھ (ج٢، ص۲۲٦ ، ) واللہ تعالیٰ ورسولہ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اعلم بالصواب

کتبہ گدائے حضور رئیس ملت محمد صدام حسین برکاتی فیضی میرانی
صدر میرانی دار الافتاء و شیخ الحدیث جامعہ فیضان اشرف رئیس العلوم اشرف نگر کھمبات شریف گجرات انڈیا۔
١٦ محرم الحرام ١٤٤٤ھ مطابق ١٥ اگست ٢٠٢٢ء