مساجد کا بیان

مسجد کا روم بغیر کرایہ کے اسکول کو دینا کیسا ؟

(١) کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل میں کہ ایک تعلیمی سوسائٹی بنام "ڈاکٹر ذاکر حسین ایجوکیشنل سوسائٹی” ہے اس کے تحت اردو ہائی اسکول عربی مدرسہ (مکتب) اور اردو نرسری اسکول (اس میں اردو، انگریزی کنڑ کے ساتھ ساتھ دینیات بھی سکھایا جاتا ہے) چلتے ہیں۔ ہائی اسکول اور عربی مدرسہ گورمنٹ گرانٹ پر ہیں۔ ہائی اسکول کی اپنی عمارت ہے اور عربی مدرسہ (صبح شام) شروع سے ہی تقریباً تیس سالوں سے جامع مسجد کے کمروں میں چلتا آرہا ہے کمروں کا کوئی کرایہ مسجد کی طرف سے نہیں لیا جاتا ہے۔ اس مدرسہ میں تین علما برسر روزگار ہیں جو یہاں پڑھانے کے ساتھ ساتھ جامع مسجد میں امامت ، خطابت اور مسجد و سماج کے دیگر اہم کاموں میں مکمل ذمہ داری کے ساتھ تن دہی سے شریک رہتے ہیں اور ان کاموں کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے اگر معاوضہ لینا چاہیں تو اس کی موجودہ رقم کم از کم کتنی بنتی ہے اور یہ لے سکتے ہیں یا نہیں؟
(٢) اصلاً جماعت مسجد اور سوسائٹی کے مابین کوئی مد بھیڑ نہیں ہے۔ مدبھیڑ کی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ اوپر مذکور ہے کہ سوسائٹی کی ایک نرسری اسکول ہے اس نرسری اسکول کو چند ماہ قبل اسی جگہ منتقل کیا گیا ہے جہاں عربی مدرسہ چلتا ہے اب جماعت والوں کا یہ کہنا ہے کہ سوسائٹی ان کمروں کا کرایہ دے اور سوسائٹی والوں کا کہنا ہے کہ ویسے بھی دن بھر یہ کمرے خالی رہتے ہیں تو پڑھانے میں کیا حرج ہے۔ اور اس میں پڑھنے والے بچے مالی اعتبار سے کمزور اور اسی مسجد کے اکثر مصلیان کے ہیں بچوں میں صرف بیس فیصد ایسے ہیں جو بمشکل فیس دیتے ہیں اور اسی فیصد بچے فیس نہیں دیتے اور یہ سب اہل سنت و جماعت کے بچے ہیں یہ ادارہ کرایہ دینے کی طاقت نہیں رکھتا اور بچوں کے ذریعہ لی گئی فیس اس کے اخراجات کے لئے ناکافی ہے اس کے ٹیچروں اور دائیوں کے تنخواہ سوسائٹی بمشکل ہی ادا کرپاتی ہے اور یہ کمروں کا کرایہ اس پر اضافی بوجھ ہوجائے گا ۔
اس تفصیل کی روشنی میں کہ کیا جماعت مسجد اس "اردو نرسری اسکول” کو بغیر کرایہ کے دے سکتی ہے جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔
المستفتیان: اراکین ڈاکٹر ذاکر حسین ایجوکیشن سوسائٹی ، گھٹ پربھا ضلع بلگام، کرناٹک انڈیا


الجواب -بعون الملک الوھاب-(١) سوال سے ظاہر ہیکہ مذکورہ علماء کرام بلاتنخواہ جامع مسجد میں امامت و خطابت اور سماجی امور انجام دے رہے تھے اس لئے وہ تنخواہ کے حقدار نہیں۔
(٢) اگر واقف نے مذکورہ کمرہ "اردو نرسری اسکول” کو بغیر کرایہ کے دینے کی شرط کے ساتھ وقف کیا ہو تو ذمہ داران مسجد بغیر کرایہ کے دے سکتے ہیں فان شرط الواقف کنص الشاعر علیہ الصلوٰۃ والسلام ورنہ نہیں۔ کہ ذمہ داران مسجد، مسجد یا اوقاف مسجد کے مالک نہیں ہیں۔
اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:”حکم شرعی یہ ہے کہ اوقاف میں پہلی نظر شرط واقف پر ہے یہ زمین و دکانیں اس نے جس غرض کےلئے مسجد پر وقف کی ہوں ان میں صرف کیا جائے گا اگرچہ وہ افطاری و شیرینی وروشنی ختم ہو اور اس کے سوا دوسری غرض میں اس کاصرف کرنا حرام حرام سخت حرام اگرچہ وہ بناء مدرسہ دینیہ ہوفان شرط الواقف کنص الشارع صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم (واقف کی شرط ایسے ہی واجب العمل ہے جیسے شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نص) حتی کہ اگر اس نے صرف تعمیر مسجد کےلئے وقف کی تو مرمت شکست و ریخت کے سوا مسجد کے لوٹے چٹائی میں بھی صرف نہیں کرسکتے افطاری وغیرہ درکنار، اور اگر مسجد کے مصارف رائجہ فی المساجد کے لئے وقف ہے تو بقدر معہود وشیرینی وروشنی ختم میں صرف جائز افطاری ومدرسہ میں ناجائز۔ نہ اسے تنخواہ مدرسین وغیرہ میں صرف کرسکتے ہیں کہ یہ اشیاء مصارف مسجد سے نہیں ولایجوز احداث مرتبۃ فی الواقف فضلا عن الاجنبی (جب خود واقف کےلئے کسی نئی چیز کا احداث وقف میں جائز نہیں تو محض اجنبی شخص کیلئے کیسے ہوسکتا ہے۔) اور اگر اس نے ان چیزوں کی بھی صراحۃً اجازت شرائط وقف میں رکھی یا مصارف خیر کی تعمیم کردی یا یوں کہاکہ دیگر مصارف خیر حسب صوابدید متولی، تو ان میں بھی مطلقاً یا حسب صوابدید متولی صرف ہوسکے گا۔

واللہ تعالیٰ ورسولہ ﷺ اعلم بالصواب۔

کتبہ محمد صدام حسین برکاتی فیضی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے