اسلامی تواریخ کی تحقیق

کیا حضورﷺ نے کبھی اذان دیا ہے یا نہیں؟

کیا فرماتے ہیں علماے دین ومفتیان شرع متین اذان رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بارےمیں کہ کیا کبھی آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان دیا ہےجبکہ فضیلت اذان کے تعلق سے بہت سارے اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور اذان سے رب تعالی کو بہت پیار ھے ۔اجیبوابالدلائل مفتی صاحب قبلہ بڑی مہربانی ہوگی ھم آپ کے بہت مشکور ہونگی
المستفتیہ: ناظمہ خاتون متعلمہ جماعت
سادسہ جامعہ اھلسنت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا
کلواری نانکار دھوبھا سدھارتھنگر


بسم ﷲ الرحمن الرحيم
الجواب بعون الملک الوہاب-اس باب میں محدثین کرام کا اختلاف ہے کہ آیا سرکار نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے نماز کے لیے اذان دی ہے یا نہیں البتہ علامہ علاء الدین حصکفی علیہ رحمۃ الباری نے درمختار میں تحریر فرمایا ہے کہ آقائے کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ایک بار سفر میں اذان دی ہے امام نووی نے اسی کو قوی قرار دیا اور امام ابن حجر مکی نے "تحفہ” میں اسی کو ذکر کیا ہے اور سیدی امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز نے اسی کو اختیار فرمایا ہے
در مختار میں ہے”و فی الضیاء”انہ علیہ الصلاۃ والسلام اذن فی سفر بنفسہ واقام وصلی الظھر وقد حققنا فی الخزائن”اھ وفی رد المحتار” حیث قال بعد ما ھنا وفی شرح البخاری لابن حجر یکثر السؤال عنہ ھل باشر النبی صلی ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم الاذان بنفسہ؟ وقد اخرج الترمذی انہ علیہ الصلاۃ والسلام اذن فی سفر وصلی باصحابہ وجزم بہ النووی وقواہ لکن وجد فی مسند احمد من ھذا الوجہ”فامر بلالا فاذن، فعلم ان فی روایۃ الترمذی اختصارا وان معنی قولہ”اذن” امر بلالا کما یقال اعطی الخلیفۃ العالم الفلانی کذا وإنما باشر العطا غیرہ”اھ(ج٢ص٨٨، کتاب الصلاۃ،باب الاذان، مطلب:ھل باشر النبی صلی ﷲ علیہ وسلم الاذان بنفسہ) یعنی”ضیاء” میں ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے سفر میں بنفس نفیس اذان دی تکبیر کہی اور ظہر کی نماز پڑھائی اور ہم نے”خزائن” میں اس کے بارے میں تحقیق کی ہے اھ اور رد المحتار میں ہے”وہاں اس گفتگو کے بعد یہ فرمایا کہ ابن حجر کی”فتح الباری شرح البخاری” میں ہے کہ اکثر طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے خود اذان دی ہے؟ اور ترمذی نے خود روایت کیا ہے کہ آپ نے دوران سفر خود اذان دی اور صحابہ کو نماز پڑھائی امام نووی نے اسی پر جزم کرتے ہوئے اسے قوی قرار دیا لیکن اسی طریق سے مسند احمد میں ہے کہ آپ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اذان کہی اس سے معلوم ہوا کہ روایت ترمذی میں اختصار ہے اور ان کے قول”اذن” کا معنی یہ ہے کہ آپ نے بلال کو اذان کا حکم دیا جیسا کہ محاورۃ کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے فلاں عالم کو یہ عطیہ دیا حالانکہ وہ خود عطا نہیں کرتا بلکہ عطا کرنے والا کوئی غیر ہوتا ہے اھ
محدث بریلوی امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز”جد الممتار” میں لکھتے ہیں”اقول، لکن سیأتی فی صفۃ الصلاۃ ص٥٣٢ عن” التحفۃ”للامام ابن حجر المکی: انہ صلی ﷲ علیہ وسلم اذن مرۃ فی سفر فقال فی تشھدہ، اشھد انی رسول ﷲ، وقد أشار ابن حجر الی صحتہ وھذا نص مفسر لایقبل التأویل وبہ یتقوی تقویۃ الإمام النووی”اھ(ج٣ص٨١، کتاب الصلاۃ، باب الاذان، مطلب:ھل باشر النبی صلی ﷲ علیہ وسلم الاذان بنفسہ) اقول: عنقریب صفات نماز کے تحت ذکر تشھد میں تحفہ امام ابن حجر سے آرہا ہے کہ نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے سفر میں ایک دفعہ اذان دی تھی اور کلمات شہادت یوں کہے”اشھد انی رسول ﷲ” اور ابن حجر نے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا اور یہ نص مفسر ہے جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں اور اس سے امام نووی کے قول کو اور تقویت ملتی ہے وﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب.

کتبہ: محمد ارشد حسین الفیضی
١٤صفر المظفر ١٤٤٤