کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام و مفتیاں شرع متین مسٸلہ ذیل کےبارے میں کہ زید شادی شدہ ہے اس کے دو بچے ہیں زید محنت مزدوری کرنے کے لئے سعودی عرب میں کام کرتاہے پیچھے گھر پراس کی بیوی نے محلہ میں ایک لڑکے کے ساتھ غلط تعلقات قائم کرلئے جب زید چار سال بعد گھر آیاتو دو مہینہ گھر پر رہا دوسرے مہینہ کے اختتام پر زید کی بیوی تمام زیورات اور تقریباً دولاکھ روپے نقد لیکر اس لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی زید نے بیوی اور اس لڑکے کے خلاف پولیس تھانہ میں اطلاع دی پولیس نے ایک ہفتہ کے بعد ان دونوں کوراجستھان سے گرفتار کرکے حاضر کیا پھر لڑکے کو تھانہ میں رکھا اور عورت کو اس کے والدین اور اس کے شوہر کے حوالے کردیا عورت کو ماں باپ اسکا اور اس کا شوہر لیکر گھر آگئے ماں باپ اور شوہر نے اس کو سمجھایا ڈانڈڈپٹ کی کہ تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں انکی دیکھ بھال کون کرے گا تم نے ایسی غلطی کیوں کی تو وہ مار سے بچنے کے لئے چالاکی سے معافی مانگنے لگی معاف کردو آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی قسم کھانے لگی اور کہنے لگی مجھے فلاں درگاہ پر لے چلو درگاہ پر جاکر اس نے حلف اٹھایا اب غلطی نہیں کروں گی شوہر سے کہا تم بھی وعدہ کرو حلف اٹھاؤ کہ مجھے بعد میں طلاق تو نہیں دوگے شوہر نے بھی تسلی دی عورت نے شوہر سے کہا میں کورٹ میں جاکر اس لڑکے کے خلاف بیان دوں گی کہ اس نے میرے ساتھ زبردستی کی مجھے اپنے ساتھ لے گیا اب گھر والے سب مطمٸن ہو گئے چھوٹے بچوں کی وجہ سے سب معاملہ رفع دفع کردیا دس دن ٹھیک ٹھاک سے رہے دس دنوں کے بعد کورٹ میں اس لڑکے کے خلاف بیان دینے تھے عورت اور گھر والے سب کورٹ میں پہنچے اب عورت جب جج کے سامنے پہنچی اس نے فوراً اپنے عاشق کے حق میں بیان دیتے ہوئے اور جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے جج سے کہا مجھے اپنے گھر والوں سے خطرہ ہے میں گھر نہیں جاؤں گی اب وہ عورت اسی لڑکے کے کسی رشتہ دار کے گھر پر ہے لڑکا بھی ادھر ہی ہے لڑکے کے رشتہ داروں میں سے چند لوگ ہیں جو زید کا گھر اجاڑنے کی کوشش کررہے ہیں زید کبھی نہیں چاہتا کہ وہ بیوی کو طلاق دے۔
اب از روئے شرع کیا اس شادی شدہ عورت کا اس لڑکے سے نکاح ہوسکتا ہے یانہیں اور اس لڑکے اور جو لوگ اس کام میں اس کے مدد کر رہے ہیں اس لڑکی کو اپنے گھر پر رکھے ہیں ان سب کے بارے میں شرع شریف کا کیا حکم ہے؟ براۓ مہر بانی قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل ومدلل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
المستفتی الطاف حسین بنڈی جموں و کشمیر انڈیا
الجواب-بعون الملک الوھاب- صورت مسئولہ میں نکاح ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ عورت اب بھی اپنے شوہر کے نکاح میں ہے اور منکوحہ سے نکاح حرام ہے لہذا لڑکے اور عورت دونوں پر لازم ہے کہ فوراً جدا ہوجائیں اور جو لوگ اس پر لڑکے کی مدد کررہے ہیں وہ مرتکب کبیرہ مستحق عذاب نار ہیں ان سب پر لازم ہیکہ سچی توبہ کریں کچھ صدقہ خیرات بھی کریں تو بہتر کہ نیکیاں قبول توبہ میں معاون ہوتی ہیں۔
قرآن پاک میں ہے: "وَ الۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ۔ ” (سورۃ النساء آیت ٢٤)
اور حرام ہیں شوہر دار عورتیں (کنزالایمان)
فتاوی عالمگیری میں ہے: "لايجوز للرجل أن يتزوج زوجا غيره "اھ (کتاب النکاح, باب المحرمات, ج١, ص٣٠٩ , مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
یعنی کسی مرد کو جائز نہیں کہ غیر کی بیوی سے شادی کرے۔
قرآن پاک میں ہے: "وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ” (سورة المائدة:٢)
ترجمہ: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے (کنزالایمان)
حضور نبی اکرم نور مجسم صلی ﷲ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان پاک ہے: "من مشي مع ظالم ليعينه وهو يعلم انه ظالم فقد خرج من الإسلام” (المعجم الكبير، ج١، ص١٨٠، باب لمن اعان ظالماً من العقوبة، رقم الحدیث: ٦١٩، دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)
یعنی جو دانستہ کسی ظالم کے ساتھ اس کی مدد کرنے کے لئے چلا وہ یقیناً اسلام سے نکل گیا۔ واللہ تعالیٰ ورسولہ صلی ﷲ تعالی علیہ وآلہ وسلم اعلم بالصواب
کتبہ گدائے حضور رئیس ملت محمد صدام حسین برکاتی فیضی میرانی
صدر میرانی دار الافتاء و شیخ الحدیث جامعہ فیضان اشرف رئیس العلوم اشرف نگر کھمبات شریف گجرات انڈیا۔
١٥ ذی الحجہ ١٤٤٣ھ مطابق ١٥ جولائی ٢٠٢٢ء