مسئلہ توأم
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان اسلام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک گاؤں میں دو بچیاں پیدا ہوئیں دونوں کا سر جڑا ہوا ہے اب اگر ان کی شادی ہوگی تو ایک مرد سے ہوگی یا دو مردوں سے ہوگی؟ جواب عنایت فرمائیں.
المستفتی:شہزاد رضوی ضلع بستی یو۔پی۔ انڈیا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مستفسرہ میں ان دونوں لڑکیوں کے معاملے میں چار صورتیں ممکن ہیں(١)دونوں کا نکاح دو الگ شخصیتوں سے ہو(٢)دونوں میں سے کسی ایک کا نکاح ایک شخص سے کیا جائے اور دوسری محروم رکھی جائے(٣)دونوں کا نکاح ایک ہی شخص سے کر دیا جائے(٤)دونوں ہمیشہ نکاح سے محروم رہیں۔
پہلی دو صورتیں صریح ناجائز اور ناقابل عمل ہیں کہ بغیر خلوت اجنبیہ کے جرم کا ارتکاب کئے مباشرت وغیرہ ممکن نہیں اور یہ کھلی ہوئی بے حیائی ہے ارشاد باری تعالی ہے”ان الله لايامر بالفحشاء” اھ(سورۃ الاعراف، الا’یۃ:٢٨)بیشک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔
اور تیسری صورت پر بھی عمل ممکن نہیں کہ جمع بین الاختین ہوجائے گا اور جمع بین الاختین بحکم قرآن حرام ہے ارشاد باری تعالی ہے”وانْ تجمعوا بین الاختین الا ما قد سلف”(سورۃ النساء، الا’یۃ:٢٣)یعنی حرام ہوئیں دو بہنیں اکھٹی کرنا مگر جو ہو گزرا۔
اس لیے لامحالہ آخری صورت پر ہی عمل کرنا ہوگا کہ شریعت بھی ایسوں کو عفت وصبر کا حکم فرماتی ہے اور روزوں کی کثرت اس کا علاج بتاتی ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے” ولیستعفف الذین لا یجدون نِکاحًا حتیٰ یغنیھم اللہ من فضلہ”(سورۃ النور، الا’یۃ:٣٣)جو نکاح کی طرف کوئی راہ نہ پائیں وہ بچے رہیں حتی کہ اللہ اپنے فضل سے انھیں بے پرواہ کردے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں”یامعشر الشباب من استطاع منکم الباءۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصر واحصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء”(صحيح البخاری ج٢ص٧٥٨، کتاب النکاح، مطبوعہ قدیمی کتب خانہ پشاور)
یعنی اے گروہ نوجوانان! تم میں جسے نکاح کی طاقت ہو وہ نکاح کرے کہ نکاح پریشان نظری وبدکاری روکنے کا سب سے بہتر طریقہ ہے اور جسے ناممکن ہو اس پر روزے لازم ہیں کہ کسر شہوت نفسانی کردیں گے.(ترجمہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ)
امام احمد رضا قدس سرہ العزیز اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں”ظاہرًا یہ اخباری گپ ہے ایسے عجائب اگر نادرا پیدا ہوتے ہیں تو عادۃً زندہ نہیں رہتے اور بالفرض اگر صحیح بھی ہوتو شریعت مطہرہ نے کوئی مسئلہ لاجواب نہ چھوڑا بھلا یہ صورت تو بہت بعید ہے فرض کیجیے جو عورت ابتداءبلوغ سے معاذاللہ جذام وبرص میں مبتلا ہو اور اس کے ساتھ ایسی کریہ المنظر کہ اسے کوئی قبول نہ کرتا ہو نہ کہ بحالت جذام، اس کے لیے کیا صورت ہوگی اسے شرع کیا حکم دےگی ہاں اسے عفت وصبر کا حکم فرماتی ہے اور روزوں کی کثرت اس کا علاج بتاتی ہے یہی حکم وعلاج اس عجوبہ خلقت کے لیے ہوگا”اھ ملخصاً(فتاویٰ رضویہ مترجم ج١١ص٢٢١، کتاب النکاح)
یہ حکم اس صورت میں ہے جبکہ دونوں کا جدا ہونا ممکن نہ ہو. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
کتبہ: حضرت علامہ ، مولانا مفتی محمد ارشد حسین الفیضی
٧/ربیع النور ١٤٤١ھ
بشکریہ : ميراني دارالافتاء