زکوة

حرام مال کی زکاۃ کا حکم

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کے حرام ذرائع سے کمائے ہو ئے مال کی زکوۃ ادا کرنی ہوتی ہے کہ حرام مال کی زکوۃ ادا نہیں کی جا سکتی۔
المستفتی سمیر رضا بڑودا گجرات


الجواب-بعون الملک الوھاب- حرام طریقے سے حاصل کیا ہوا مال خبیث ہے اور خبیث مال پر زکوۃ نہیں بلکہ جن جن سے لیا ہے اگر وہ لوگ معلوم ہیں تو انہیں واپس دینا واجب ہے۔ اور اگر معلوم نہ ہوں تو کل مال کو صدقہ کردینا واجب ہے۔ چالیسواں حصہ دینے سے وہ مال کیا پاک ہوسکتاہے جس کے باقی انتالیس حصے بھی ناپاک ہیں۔ ایسا ہی فتاوی رضویہ مترجم ج١٩, ص٦٥٦ پر ہے۔

علامہ حصکفی رحمۃ اللّٰہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ” لازکوۃ لوکان الکل خیبثا”۔اھ ملخصاً۔
یعنی کل مال خبیث ہوتو کچھ زکاۃ نہیں۔
( الدر المختار مع رد المحتار, ج٣, ص٢١٨, کتاب الزکاۃ, باب زکوٰۃ الغنم, مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں: "لان المغصوب ان علمت اصحابہ او ورثتہم وجب ردہ علیہم والا وجب التصدق بہ ” اھ
یعنی مغصوبہ مال کے مالک یا اس کے وارثوں کو جانتاہے تو ان کو واپس دینا واجب ہے ورنہ صدقہ کرنا واجب ہے۔
(رد المحتار علی الدر المختار, ج٣, ص٢١٨, کتاب الزکاۃ, باب زکوٰۃ الغنم, مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ گدائے حضور رئیس ملت محمد صدام حسین برکاتی فیضی میرانی
خادم میرانی دار الافتاء جامعہ فیضان اشرف رئیس العلوم اشرف نگر کھمبات شریف گجرات انڈیا
١٠ رمضان المبارک ١٤٤٣ھ مطابق ١٢ اپریل ٢٠٢٢ء