کیا فرماتے ہیں علماے کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زکوٰۃ کا پیسہ مسجد میں دے سکتے ہیں یا نہیں دے سکتے اور اگر مسجد میں دیدئے تو شرعی حکم کیا ہے اس پر قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں!
سائل: محمد حنیف رضا اگول مہسانہ
بسم ﷲ الرحمن الرحیم
الجواب -بعون الملک الوھاب- زکوٰۃ کے مصارف سات ہیں۔ کما جاء فی القرآن : اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿٦٠﴾ (سورہ توبہ: ٦٠)
زکوٰة تو انہیں لوگوں کے لیے ہے محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھڑانے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو ، یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔ (کنزالایمان)
اور مسجد مصارف زکوٰۃ سے نہیں لہذا اسے دینا جائز نہیں دیدیا تو ادا نہ ہوئی دوبارہ کسی مستحق زکوٰۃ کو دینا ضروری ہے۔
ہاں مسجد کو ضرورت ہو اور زکوٰۃ کے علاوہ کوئی مال مباح نہ ہو تو بقدر ضرورت حیلہ شرعی کے بعد مسجد میں لگاسکتے ہیں۔
علامہ حصکفی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں”وحیلة التکفین بھا التصدق علی فقیر ثم ھو یکفن فیکون الثواب لھما و کذا فی تعمیر المسجد” اھ (در مختار مع رد المحتار، ج٣، ص١٩١، کتاب الزکاۃ، مطبوعہ دار عالم الکتب الریاض)
یعنی زکاۃ سے کفن دینے کا حیلہ یہ ہے کہ کسی فقیر کو دیدے پھر وہ کفن دے تو ثواب دونوں کو ملے گا اور ایسے ہی تعمیر مسجد میں۔
امامِ اہلسنت مجدد دین و ملت سیدی سرکارِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمة و الرضوان تحریر فرماتے ہیں: "مزکی نے زر زکوۃ اسے (یعنی مستحق زکوٰۃ کو) دیا اور ماذون مطلق کیا کہ اس سے جس طور پر چاہو میری زکوۃ ادا کردو اس نے خود بہ نیت زکوۃ لے لیا، اس کے بعد مسجد میں لگادیا تو یہ بھی صحیح وجائز ہے” اھ (فتاوی رضویہ جدید، ج١٠، ص٢٧١، کتاب الزکاۃ ، رضا فاؤنڈیشن لاہور) واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ گدائے حضور رئیس ملت محمد صدام حسین برکاتی فیضی میرانی۔
خادم میرانی دار الافتاء جامعہ فیضان اشرف رئیس العلوم اشرف نگر کھمبات شریف گجرات انڈیا۔
٨ صفر المظفر ١٤٤٤ھ مطابق ٦ ستمبر ٢٠٢٢ء