وقف کا بیان

مسجد کا روپیہ قبرستان کےکام میں لگایا جاسکتاہے یا نہیں؟

  کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان اسلام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد، قبرستان اور عیدگاہ کا روپیہ ایک ہی اکاؤنٹ میں جمع ہے کچھ یا پورا روپیہ قبرستان کے کام کے لیے نکالا جاسکتا ہے یا نہیں یا مسجد کا روپیہ بطور قرض کچھ دنوں کے لیے قبرستان کے کام میں لگایا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب دے کر رہنمائی فرمائیں المستفتی:محمد مزمل حسین خطیب وامام سنی حنفی جامع مسجد کورا پوٹ اڑیسہ

     الجواب–بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب–ایک وقف کا فاضل روپیہ دوسرے وقف میں صرف کرنا حرام ہے۔

در مختار میں ہے”ان اختلف احدھما بأن بنی رجلان مسجدین او رجل مسجدا ومدرسۃ ووقف علیھما اوقافا لایجوز لہ ذالک” اھ(ج٦ص٥٥١، کتاب الوقف، فرع).

      لہذا صورت مستفسرہ میں مسجد وعیدگاہ کا روپیہ قبرستان کے کام میں صرف کرنا جائز نہیں بلکہ حرام ہے خواہ مسجد وعیدگاہ کے اوقاف کی آمدنی کا روپیہ ہو یا زرچندہ ہو۔

فتاویٰ رضویہ مترجم میں ہے”مسجد کی آمدنی دوسرے اوقاف میں صرف کرنا حرام ہے اگرچہ مسجد کو حاجت بھی نہ ہو نہ کہ بحالت حاجت کہ حرام حرام اشد حرام ہے” اھ(ج١٦ص٤٧٠، کتاب الوقف).

اور نہ ہی بطور قرض دینا جائز کہ متوالیان مسجد وعیدگاہ اس جمع شدہ روپیے کے محافظ ہیں مالک نہیں کہ بطور قرض بانٹتے پھریں اعلیحضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ العزیز اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں”حرام حرام لانہ تعدی علی الوقف والقیم اقیم حافظ لا ملتف، ولانہ صرف فی غیر المصرف” اھ (فتاویٰ رضویہ مترجم ج١٦ص٥٧١، کتاب الوقف).

اس کے چند سطر کے بعد تحریر فرماتے ہیں”لان الاقراض تبرع والتبرع إتلاف فی الحال والناظر للنظر لا للاتلاف” اھ(ج١٦ص٥٧١، کتاب الوقف).

  ہاں اگر مسجد وعیدگاہ کا روپیہ چندے کا ہو اور چندہ دہندگان معلوم ہوں تو ان کی اجازت سے بطور قرض و بغیر قرض دونوں طرح صرف کیا سکتا ہے کہ زرچندہ جب تک صرف نہ ہوجائے چندہ دہندگان کی ملک پر باقی رہتا ہے اور اگر معلوم نہ ہوں تو جائز نہیں

فتاوی رضویہ میں ہے”زرچندہ چندہ دہندوں کی ملک پر رہتا ہے اور ان کی اجازت سے صرف ہوتا ہے” اھ(ج٦ص٣٥٧، کتاب الوقف) ایسا ہی ج٦ص٣٣٦، کتاب الوقف میں بھی ہے۔

فتاوی امجدیہ میں ہے”عموما یہ چندے صدقہ نافلہ ہوتے ہیں بغیر اجازت خرچ کرنا ناجائز ہے”اھ ملخصاً (ج٣ص٣٩، کتاب الوقف). واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

کتبہ: حضرت مولانا مفتي محمد ارشد حسین الفیضی
١۸ ربیع النور ١٤٤۲ ھ

بشکریہ: میرانی دارالافتاء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے