السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ حضرت امیر معاویہ کو نبی کریم نے بد دعاء دی اس کا پیٹ کبھی نہ بھرے،
کیا ایسی کوئی حدیث ہے، اور کیا یہ صحیح ہے کی بد دعاء دی تھی؟
و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب ھو الھادی الی الصواب
اول تو نبی علیہ السلام کی دعا کے آگے بد لگانا ہی غلطی ہے کہنا ہو تو یہ کہا جاۓ دعاء ضرر فرمائ۔
یہ غلط ہے جھوٹ ہے، کہ نبی کریم نے دعاء ضرر دی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو، اس بات کا جھوٹ ہونا اس بات سے ہی ثابت ہو جاتا ہے،
نبی علیہ السلام کو گالیاں دینے والے پتھر مارنے والوں کو کبھی دعاء ضرر نہ دی تو حضرت معاویہ کو بلا قصور دعاء ضرر کیوں دیں گے،،
جس روایت کا ذکر کیا گیا وہ یہ ہے،،،
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ح و حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى قَالَا حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْقَصَّابِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنْتُ أَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَوَارَيْتُ خَلْفَ بَابٍ قَالَ فَجَاءَ فَحَطَأَنِي حَطْأَةً وَقَالَ اذْهَبْ وَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ قَالَ ثُمَّ قَالَ لِيَ اذْهَبْ فَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُلْتُ هُوَ يَأْكُلُ فَقَالَ لَا أَشْبَعَ اللَّهُ بَطْنَهُ قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى قُلْتُ لِأُمَيَّةَ مَا حَطَأَنِي قَالَ قَفَدَنِي قَفْدَةً
محمد بن مثنیٰ عنزی اور ابن بشار نے ہمیں حدیث بیان کی ۔ ۔ الفاظ ابن مثنیٰ کے ہیں ۔ ۔ دونوں نے کہا : ہمیں امیہ بن خالد نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : ہمیں شعبہ نے ابوحمزہ قصاب سے حدیث بیان کی ، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ، کہا : میں لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ، میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا ، کہا : آپ آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنے کھلے ہاتھ سے ہلکی سی ضرب لگائی ( مقصود پیار کا اظہار تھا ) اور فرمایا : جاؤ ، میرے لیے معاویہ کو بلا لاؤ ۔ میں نے آپ سے آ کر کہا : وہ کھانا کھا رہے ہیں ۔ آپ نے دوبارہ مجھ سے فرمایا : جاؤ ، معاویہ کو بلا لاؤ ۔ میں نے پھر آ کر کہا : وہ کھانا کھا رہے ہیں ، تو آپ نے فرمایا : اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر 6626
اس روایت میں یے اللہ معاویہ کا پیٹ نہ بھرے_ ان الفاظ سے دعاء ضرر دینا مراد نہیں ہے، چونکہ
کھانا دیر تک کھانا نہ تو شرعی جرم ہے اور نہ ہی قانونی جرم یے، اور پھر سیدنا ابن عباس نے حضرت معاویہ سے یہ کہا بھی نہیں کی اپ کو نبی علیہ السلام بلا رہے ہیں صرف دیکھ کر واپس اۓ اور واقعہ عرض کردیا پھر حضرت معاویہ کا یہ فعل نہ خطا ہے ، اور نبی کریم یہ دعاء ضرر دیں یہ نا ممکن ہے، اتنا غور کرنے سے ہی اعتراض ختم ہو جاتا ہے،
محاورے عرب میں اس قسم کے الفاظ پیار و محبت کے موقع پر بولے جاتے ہیں،ان سے بد دعاء مقصود نہیں ہوتی اللہ عزوجل فرماتا یے،
: سورة الأحزاب ایت 72
اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَ اَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَ حَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوۡمًا جَہُوۡلًا
بیشک ہم نے امانت پیش فرمائی آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اٹھا لی ، بیشک انسان ظالم و جاہل ہے،۔۔۔۔
،
انسان نے امانت الہیہ کا وہ بوجھ اٹھایا جسے آسمان زمین پہاڑ نہ اٹھا سکے اور رب نے انسان کو جاہل و ظالم کا خطاب دیا ۔ معلوم ہوا یہاں یہ کلمات غضب کے لیۓ نہیں بلکہ کرم کے لیۓ ارشاد ہوۓ ہیں۔ نبی کریم نے حضرت ابو ذر کو ایک سوال کے جواب میں فرمایا ،علی رغم انفی ابی ذر ابو ذر کی ناک خاک الود ہو جاۓ،، کسی سے فرمایا ،تجھے تیری ماں رودے، کسی سے فرمایا یاقاتلہ اللہ اسے غارت کرے، اپنی ایک زوجہ مطہرہ کے متعلق جب حج میں پتہ لگا کہ انہیں ایام مخصوص آگۓ ہیں، وہ طواف وداع نہیں کرسکتی تو فرمایا ،،،
عقری حلقی منڈی باندھ وغیرہ ان سب موقع ہر اظہار پیار ہے نہ کی بد دعاء جیسا کی ہمارے یہاں بھی پیار میں بول دیتے ہے پاگل بیوقوف وغیرہ الفاظ بولتے ہیں، ۔۔ اور اگر یہ مان بھی لیا جاۓ نبی علیہ السلام نے حضرت معاویہ کو دعاء ضرر دی تھی تو بھی یہ دعاء حضرت معاویہ کو دعاء بنکر لگی،۔ اسی دعاء کا نتیجہ یہ ہوا اللہ نے حضرت معاویہ کو اتنا بھرا اتنا مال دولت دیا کہ انہوں نے سنیکڑوں کا پیٹ بھردیا ایک ایک شخص کو بات بات پر لاکھ روپیہ انعام میں دیا ،،۔ کیوںکہ نبی علیہ السلام نے اللہ سے یہ عہد لے لیا تھا ،کہ جب بھی میں کسی مسلمان کو لعنت یا دعاء ضرر کردوں تو اسے رحمت اجر پاکی کا ذریعہ بنا دینا مسلم شریف میں ہے،،
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ سَالِمٍ مَوْلَى النَّصْرِيِّينَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنَّمَا مُحَمَّدٌ بَشَرٌ يَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُ الْبَشَرُ وَإِنِّي قَدْ اتَّخَذْتُ عِنْدَكَ عَهْدًا لَنْ تُخْلِفَنِيهِ فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ آذَيْتُهُ أَوْ سَبَبْتُهُ أَوْ جَلَدْتُهُ فَاجْعَلْهَا لَهُ كَفَّارَةً وَقُرْبَةً تُقَرِّبُهُ بِهَا إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
نصریوں کے آزاد کردہ غلام سالم نے کہا : میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا ، کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ ( دعاء کرتے ہوئے ) فرما رہے تھے : اے اللہ! محمد ایک بشر ہی ہے ، جس طرح ایک بشر کو غصہ آتا ہے ، اسے بھی غصہ آتا ہے اور میں تیرے حضور ایک وعدہ لیتا ہوں جس میں تو میرے ساتھ ہرگز خلاف ورزی نہیں فرمائے گا کہ جس مومن کو بھی میں نے تکلیف پہنچائی ، اسے برا بھلا کہا یا کوڑے سے مارا تو اس سب کچھ کو اس کے لیے گناہوں کا کفارہ بنا دینا اور ایسی قربت میں بدل دینا جس کے ذریعے سے قیامت کے دن تو اسے اپنا قرب عطا فرمائے۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 6622)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: فقیر محمد دانش حنفی
ہلدوانی نینیتال، 9917420179