تاریخی واقعات کی تحقیقی

کیا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی موت پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خوش ہوئے

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے اہلسنت اس بارے میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بتائی تو انہوں نے کہا تم کیا ان کی موت کو مصیبت سمجھتے ہو، نیز ان کی مجلس میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو آگ کا انگارا کہا گیا۔
لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خاموش رہے،
اور مقدام نے کہا تمہارے گھر میں ریشم سونا درندے وغیرہ ہیں کیا یہ حدیث کی مخالفت نہیں یے؟
ان سب کا جواب عنایت فرمائیںفتوؤں!

المستفتی: سید راکب علی

و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ

الجواب ھو الھادی الی الصواب
آپ نے جو تحریر مجھے بھیجی ہے، اس کا لکھنے والا یہ ثابت کرنا چاہتا یے، جیسا کی تحریر کے اوپر لکھا ہوا بھی ہے، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی موت پر کون خوش ہوا حرام کام کس کے گھر میں ہوتا تھا،
یعنی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں حرام کام ہوتا تھا اور وہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کی موت ہر خوش ہوۓ،،
آپ نے جو تحریر ارسال کی اس میں لکھا یے ابو داود کے حوالہ سے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ان کی موت کو تم مصیبت سمجھتے ہو

اول تو یہ ترجمہ ہی غلط کیا ہے حدیث میں الفاظ اس طرح ہے فقال رجل اترھا مصیبتہ۔ یعنی جب حضرت معاویہ کو انتقال کی خبر دی تو وہاں موجود ایک شخص نے کہا کیا تم ان کی موت کو مصیبت سمجھتے ہو
تو حدیث میں ایک مرد کا ذکر ہے نہ کی حضرت معاویہ کا کیا موت کو مصیبت سمجھتے ہو کہنے سے یہاں یہ مراد ہے موت تو مومن کے لیۓ توحفہ ہے نہ کی مصیبت کہ موت کے سبب تو گناہ معاف ہوتے ہیں نبی علیہ السلام کی زیارت ہوتی ہے نیک انسان کے لیۓ موت مصیبت نہیں بلکہ تحفہ ہے اور حضرت حسن تو عادل متقی شخص ہیں۔
اس پر وہ شخص کہتا ہے ہاں مصیبت سمجھتا ہوں کہ وہ نبی علیہ السلام کے مشابہ ہیں انکو نبی پاک نے گود میں بٹھایا ان کا مصیبت کہنا ان معنی میں ہے کے نبی پاک کے وہ مشابہ تھے جب نبی پاک کی زیارت کا دل کرتا تھا تو ہم حضرت حسن کو دیکھ لیا کرتے تھے لیکن آج ان کا انتقال ہو گیا تو یہ ہمارے لیۓ مصیبت ہی ہے۔

تحریر لکھنے والے نے گمراہ کرنے کے لیے حضرت معاویہ کا نام لکھا ہے اس کے غلط معنی بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے حضرت معاویہ کے لیے دل میں کتنی دشمنی ہے

مقدام نے جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا ریشم سونا درندے وغیرہ میں آپ کے گھر میں دیکھ رہا ہوں اس کا جواب یہ ہے مقدام نے یہ نہیں کہا کی آپ اس کو استعمال کرتے ہیں
بلکہ کہا میں آپ کے گھر میں دیکھ رہا ہوں اب ظاہر بات ہے اگر گھر میں سونا ریشم ہو اور اس کو استعمال مرد نہ کرے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں وہ حرام کام کرتا ہے یا حدیث کا مخالف ہے۔
ایسے ہی حضرت امیر معاویہ کے گھر میں سونا ریشم وغیرہ ہونے سے یہ تو لازم نہیں آتا وہ اس کو استعمال کرتے تھے بلکہ گھر میں عورتیں بھی ہوتی ہیں اور عورتوں کے لیے سونا ریشم کا استعمال جائز یے۔
تو یہ اشیائے ان کے لیے تھی نہ کی خود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس کو استعمال کرتے تھے اگر یہ مان بھی لیا جاۓ کی وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہی استعمال کرتے تھے
تو اس کا جواب یہ ہے آپ ان چیزوں کو جنگ کے وقت استعمال کرتے ہوں یا اس کے استعمال کرنے کا جو جائز طریقہ ہے اس جائز طریقہ سے استعمال کرتے ہوں ان جائز مقامات پر استعمال کرتے ہوں جہاں اجازت دی گئ ہے۔

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو آگ کا انگارہ کہا گیا تو اس کا جواب یہ ہے۔
اس روایت میں لفظ جمرہ آیا ہے جس کے معنی ہیں آگ کا انگارہ
مگر اس روایت میں آگ کا انگارہ مراد نہیں ہے بلکہ یہاں مضبوط طاقتور کے معنی ہے جب متحد ہونے والے لوگ ایک طاقت بن جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے ھم جمرتہ وہ مضبوت و طاقتور لوگ ہیں
اس معنی کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضرت حسن حضرت معاویہ کے مقابل پہاڑوں کی مانند لشکر لیکر پہنچے تو حضرت عمر و بن عاص نے حضرت معاویہ سے کہا میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں کے جو اپنے مقابل کو پسپا کیۓ بغیر واپس نہیں جاۓ گا۔ یعنی وہ بہت ہی زیادہ مضبوط طاقتور لشکر ہیں اسی لیۓ حضرت حسن کو جمرتہ کہا اور یہاں مضبوط اور طاقتور کے معنی ہے۔ اس وجہ سے حضرت معاویہ خاموش رہے
ورنہ یہ بات تو غیر بھی جانتے ہے حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ تعالٰی عنہما
سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلقات بہت اچھے تھے آپ ان
حضرات کو تحفے دیا کرتے تھے ایک بار 40 لاکھ روپے اور ایک بار دونوں حضرات کو بیس بیس لاکھ روپے
عطا فرماۓ
یہ بات خود مخنف ابی مقتل میں ہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تحفے دیا کرتے تھے۔
اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کتنے سخی تھے اس بات کا پتہ اسی حدیث سے چلتا ہے جو حدیث بطور اعتراض پیش کی ہے۔ جب حضرت معاویہ نے ان حضرات کی حضرت حسن سے اتنی شدید محبت دیکھی تو
مقدام اور ان کے ساتھیوں کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خوب مال عطا کیا اس کا ذکر اعتراض کرنے والے نے نہیں کیا ذکر نہ کرکے اپنی دشمنی کا اظہار کیا ہے،

، اب میں پوری حدیث ذکر کرتا ہوں ،،
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بَحِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِ يكَرِبَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ:‏‏‏‏ أَتَرَاهَا مُصِيبَةً ؟ قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذَا مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْأَسَدِيُّ:‏‏‏‏ جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ الْمِقْدَامُ:‏‏‏‏ أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّى أُغَيِّظَكَ وَأُسْمِعَكَ مَا تَكْرَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ يَا مُعَاوِيَةُ إِنَّ أَنَا صَدَقْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَصَدِّقْنِي وَإِنْ أَنَا كَذَبْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَكَذِّبْنِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَفْعَلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ هَذَا كُلَّهُ فِي بَيْتِكَ يَا مُعَاوِيَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ مُعَاوِيَةُ:‏‏‏‏ قَدْ عَلِمْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْكَ يَا مِقْدَامُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ خَالِدٌ:‏‏‏‏ فَأَمَرَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بِمَا لَمْ يَأْمُرْ لِصَا حِبَيْهِ وَفَرَضَ لِابْنِهِ فِي الْمِائَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَفَرَّقَهَا الْمِقْدَامُ فِي أَصْحَابِهِ قَالَ:‏‏‏‏ وَلَمْ يُعْطِ الْأَسَدِيُّ أَحَدًا شَيْئًا مِمَّا أَخَذَ فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَمَّا الْمِقْدَامُ فَرَجُلٌ كَرِيمٌ بَس

مقدام بن معدی کرب، عمرو بن اسود اور بنی اسد کے قنسرین کے رہنے والے ایک شخص معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے مقدام سے کہا: کیا آپ کو خبر ہے کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا انتقال ہو گیا؟ مقدام نے یہ سن کر انا لله وانا اليه راجعون پڑھا تو ان سے ایک شخص نے کہا: کیا آپ اسے کوئی مصیبت سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں اسے مصیبت کیوں نہ سمجھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی گود میں بٹھایا، اور فرمایا: یہ میرے مشابہ ہے، اور حسین علی کے ۔ یہ سن کر اسدی نے کہا: ایک انگارہ تھا جسے اللہ نے بجھا دیا تو مقدام نے کہا: آج میں آپ کو ناپسندیدہ بات سنائے، اور ناراض کئے بغیر نہیں رہ سکتا، پھر انہوں نے کہا: معاویہ! اگر میں سچ کہوں تو میری تصدیق کریں، اور اگر میں جھوٹ کہوں تو جھٹلا دیں، معاویہ بولے: میں ایسا ہی کروں گا۔ مقدام نے کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ معاویہ نے کہا: ہاں۔ پھر کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی کپڑا پہننے سے منع فرمایا ہے؟ کہا: ہاں معلوم ہے، پھر کہا: میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھال پہننے اور اس پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے؟ کہا: ہاں معلوم ہے۔ تو انہوں نے کہا: معاویہ! قسم اللہ کی میں یہ ساری چیزیں آپ کے گھر میں دیکھ رہا ہوں؟ تو معاویہ نے کہا: مقدام! مجھے معلوم تھا کہ میں تمہاری نکتہ چینیوں سے بچ نہ سکوں گا۔ خالد کہتے ہیں: پھر معاویہ نے مقدام کو اتنا مال دینے کا حکم دیا جتنا ان کے اور دونوں ساتھیوں کو نہیں دیا تھا اور ان کے بیٹے کا حصہ دو سو والوں میں مقرر کیا، مقدام نے وہ سارا مال اپنے ساتھیوں میں بانٹ دیا، اسدی نے اپنے مال میں سے کسی کو کچھ نہ دیا، یہ خبر معاویہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا: مقدام سخی آدمی ہیں جو اپنا ہاتھ کھلا رکھتے ہیں، اور اسدی اپنی چیزیں اچھی طرح روکنے والے آدمی ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب
کتبہ محمد دانش حنفی ، 9917420179

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے