مفتی صاحب کیا کوئی مسلمان مرد کسی عیسائی عورت سے نکاح کرسکتا ہے ؟
المستفتی: کلیم U.K.
الجواب-بعون الملک الوھاب- عیسائی عورت سے نکاح نہ کرنا چاہئے کہ اس زمانہ کے عیسائیوں کے اہل کتاب ہونے میں علمائے کرام رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اختلاف ہے بہت سے مشائخین عظام رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیھم کا میلان اس جانب ہے کہ یہ اہل کتاب نہیں بلکہ مشرک ہیں اور بعض علمائے کرام نے اسی کو قول مفتی بہ قرار دیا ہے۔ ایسا ہی فتاوی رضویہ جدید ج١٤، ص١١٧، پر ہے۔
محقق علی الاطلاق علامہ ابن الھمام کمال الدین علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں: "قالواھذایعنی الحل اذالم یعتقدوا المسیح الھا اما اذا اعتقدوہ فلا و فی مبسوط شیخ الاسلام ویجب ان لایأکلوا ذبائح اھل الکتاب اذا اعتقدوا ان المسیح الہ وان عزیر الہ ولا یتزوجوا نساء ھم وقیل علیہ الفتوی…..فاما من اطلق حلهم فيقول مطلق لفظ المشرک اذا ذکر فی لسان الشارع لاینصرف الی اھل الکتاب وان صح لغۃ فی طائفۃ بل طوائف واطلق لفظ الفعل اعنی یشرکون علی فعلھم کما ان من رأی بعمله من المسلمین فلم یعمل الا لاجل زید یصح فی حقہ انہ مشرک لغۃ ولایتبادر عند اطلاق الشارع لفظ المشرک ارادتہ لما عھد من ارادتہ بہ من عبد مع ﷲ غیرہ ممن لایدعی اتباع نبی وکتاب ولذلک عطفھم علیہ فی قولہ تعالی لم یکن الذین کفروا من اھل الکتب والمشرکین منفکین ونص علی حلھم بقولہ تعالی والمحصنت من الذین اوتوا الکتب من قبلکم ای العفائف منھم” اھ (شرح فتح القدیر علی الھدایہ ملخصاً، ج٣، ص٢١٩، کتاب النکاح ، باب المحرمات، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
یعنی علماء نے فرمایا کہ ان کا ذبیحہ تب حلال ہوگا جب کہ وہ عیسی علیہ السلام کو الہ نہ مانتے ہوں، لیکن اگر وہ ان کو الہ مانتے ہوں تو پھر حلال نہ ہوگا، اور شیخ الاسلام کی مبسوط میں ہے کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ اس صورت میں نہ کھائیں جب وہ مسیح علیہ السلام اور عزیر علیہ السلام کو الہ مانتے ہوں اور اندریں صورت ان کی عورتوں سے نکاح بھی نہ کریں، کہا گیا ہے کہ اسی پر فتوی ہے…..اور جو لوگ ان کی حلت کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں لفظ مشرک جب مطلق ذکر کیا جائے تو شرعی اصطلاح میں اہل کتاب کو شامل نہ ہوگا اگرچہ لغت کے لحاظ سے اہل کتاب کے ایک گروہ یا کئی گروہوں پر اس کا اطلاق صحیح ہے، اہل کتاب کے فعل پر صیغہ یشرکون کا اطلاق ایسے ہے جیسے کسی مسلمان ریاکار کے اس عمل پر جس کو مثلا زید کی خوشنودی کےلئے کررہا ہوتو کہا جاسکتا ہے کہ یہ لغت کے لحاظ سے مشرک ہے، شرعی اصطلاح میں مطلقا لفظ مشرک کا استعمال صرف اس شخص کے لئے متبادر ہوتا ہے، جو کسی نبی اور کتاب کی اتباع کے دعوی کے بغیر ﷲ تعالی کی عبادت میں غیر کو شریک کرے اسی لئے اہل کتاب پر مشرکین کا عطف ﷲ تعالی کے اس قول”لم یکن الذین کفروا من اھل الکتب والمشرکین منفکین”میں کیا گیا ہے اور ﷲتعالی کے اس قول”والمحصنت من الذین اوتوالکتب” میں کتابیہ عورتوں کے حلال ہونے پر صراحتا نص فرمائی گئی ہے یعنی اہل کتاب کی عفیف عورتیں حلال ہیں۔
نیز اعلی حضرت امام احمد رضا رضی ﷲ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں: "بالجملہ محققین کے نزدیک راجح یہی ہے کہ یہود ونصاری مطلقا اہل کتاب ہیں اور ان پر احکام مشرکین جاری نہیں…..مگر تاہم جبکہ علماء کا اختلاف ہے اوراس قول پر فتوٰی بھی منقول ہوچکا تو احتیاط اسی میں ہے کہ نصارٰی کی نساء وذبائح سے احتراز کرے…..کہ ایسی جگہ اختلاف ائمہ میں پڑنا محتاط آدمی کا کام نہیں، اگر فی الواقع یہ یہود و نصارٰی عند ﷲ کتابی ہوئے تاہم ان کی عورتوں سے نکاح اور ان کے ذبیحہ کے تناول میں ہمارے لئے کوئی نفع نہیں، نہ شرعاً ہم پر لازم کیاگیا، نہ بحمد ﷲ ہمیں اس کی ضرورت بلکہ برتقدیر کتابیت بھی علماء تصریح فرماتے ہیں کہ بے ضرورت احتراز چاہئے،
فی فتح القدیر یجوز تزوج الکتابیات والاولٰی ان لایفعل ولایأکل ذبیحتھم الاللضرورۃ
(فتح القدیر میں ہے کتابیات سے نکاح جائز ہے،اور اولٰی یہ ہے کہ نہ کیا جائے اور نہ ہی ان کاذبیحہ بغیر ضرورت کھایا جائے)
اور اگر انہیں علماء کا مذہب حق ہو اور یہ لوگ بوجہ ان اعتقادوں کے عند ﷲ مشرک ٹھہرے تو پھر زنائے محض ہوگا اور ذبیحہ حرام مطلق والعیاذ با اللہ تعالٰی، توعاقل کا کام نہیں کہ ایسا فعل اختیار کرے جس کی ایک جانب نامحمود ہو اور دوسری جانب حرام قطعی، فقیر غفر ﷲ تعالٰی لہ ایسا ہی گمان کرتا تھا یہاں تک کہ بتوفیق الٰہی مجمع الانہر میں اسی مضمون کی تصریح دیکھی،
"حیث قال فعلی ھذایلزم علی الحکام فی دیارنا ان یمنعوھم من الذبح لان النصارٰی فی زماننا یصرحون بالابنیۃ قبحھم ﷲ تعالٰی وعدم الضرورۃ متحقق والاحتیاط واجب لان فی حل ذبیحتھم اختلاف العلماء کما بیناہ فالاخذبجانب الحرمۃ اولی عند عدم الضرورۃ” اھ (جہاں انہو ں نے فرمایا کہ اس بناء پر ہمارے ملک کے حکام پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو نصارٰی کے ذبیحہ سے منع کریں کیونکہ ہمارے زمانہ کے نصارٰی عیسٰی علیہ السلام کے ابن ﷲ ہونے کی تصریح کرتے ہیں، جبکہ ضرورت بھی متحقق نہیں ہے تو احتیاط واجب ہے کیونکہ ان کے ذبیحہ میں علماء کا اختلاف ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے تو حرمت والی جانب اپنانا بہتر ہے جبکہ ضرورت نہیں ہے) ” اھ ملخصاً ( فتاوی رضویہ جدید، ج١٤، ص١١٨،اور١٢٣، رسالہ اعلام الاعلام بان ھندوستان دار الاسلام، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور) واللہ تعالیٰ ورسولہ ﷺ اعلم بالصواب
کتبہ محمد صدام حسین برکاتی فیضی
صدر میرانی دار الافتاء وشیخ الحدیث جامعہ فیضان اشرف رئیس العلوم اشرف نگر کھمبات شریف گجرات انڈیا۔
٢٧ ربیع الثانی ٤٤٤١ھ مطابق ٢٣ نومبر ٢٢٠٢ء