اشعار کی تحقیق

کلام اعلی حضرت رضی ﷲ تعالی عنہ میں لفظ تم غلط یا صحیح ؟

عرض یہ ہے کہ کعبہ کے بدرالدجی تم پہ کروروں درود
طیبہ کے شمس الضحی تم پہ کروروں درود

اس میں سرکار اعلحضرت نے جو تم کا لفظ استعمال کیا ہے زید کہتا ہے یہ غلط ہے تم کا لفظ سرکار اعلحضرت کو نہیں استعمال کر نا چاہئے تھا بلکہ آپ کا لفظ استعمال کرنا چاہئے تھا جیسے ہم لوگ بات کرتے وقت اپنے پیر یا اپنے استاد کو آپ کہتے ہیں تم نہیں کہتے لہذا یہ سرکار اعلی حضرت نے غلط لکھا ہے۔
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اعلی حضرت رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا تم لکھنا شرعاً صحیح ہے یا غلط؟
سائل: سرتاج علی فیض آباد یوپی انڈیا


الجواب -بعون الملک الوھاب- سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی ﷲ تعالی عنہ کے کلام میں لفظ تم کے استعمال کو غلط کہنے والا نہایت جاہل و بے ادب ہے اس کا یہ کہنا کہ "کعبہ کے بدر الدجیٰ تم پہ کروروں درود” میں لفظ تم کا استعمال غلط ہے اور بطور دلیل یہ قیاس پیش کرنا کہ "جیسے ہم لوگ بات کرتے وقت اپنے پیر یا اپنے استاد کو آپ کہتے ہیں تم نہیں کہتے” یہ قیاس مع الفارق ہے وجہ یہ کہ بے شک نثر میں بڑے کو ادباً آپ کہا جاتا ہے اور تم کہنے کو بے ادبی سمجھا جاتا ہے لیکن نظم میں بڑوں کے لئے لفظ تم کا استعمال ہرگز بے ادبی نہیں ہے کہ ادب و بے ادبی کا مدار عرف پر ہے اور یہاں اہل زبان کا عرف یہ ہے کہ نظم میں بڑوں کے لئے لفظ تم اور تو ، تجھے وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔
قواعد اردو مصنفہ از مولوی عبدالحق میں ہے: نظم میں اکثر مخاطب کے لئے تو لکھتے ہیں یہاں تک کہ بڑے بڑے لوگوں اور بادشاہوں کو بھی اسی طرح مخاطب کیا جاتا ہے۔
بعد شاہان سلف کے تجھے یوں تفضیل جیسے قرآں پسِ توریت و زبور و انجیل (ذوق دہلوی)
دعا پر کروں ختم اب یہ قصیدہ
کہاں تک کہوں تو چنیں وچنا ہے (میر) اھ (ص٦٥، مطبوعہ الناظر پریس واقع خیالی گنج لکھنؤ)
فتاوی مشاہدی جلد ١، صفحہ ٤١٦،پر ہے: ” تو تیرا تم وغیرہ لغۃ اگرچہ ضمیر مخاطب اور کلمہ خطاب ہے جو ادنی کی طرف کیا جاتا ہے لیکن یہ معاملہ صرف نثر تک ہی محدود ہے نظم میں معاملہ اس کے خلاف ہے۔
جیسا کہ جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے رکن مجلس شوری و معروف ادیب ڈاکٹر شکیل اعظمی صاحب تو تم اور تیرا وغیرہ ضمائر کی تحقیق کرتے ہوئے اس طرح رقم طراز ہیں : "اگرچہ لغوی اعتبار سے تو اور تیرا کے الفاظ کم تر درجہ والوں کے لئے وضع کئے گئے ہیں لیکن اہل زبان پیار و محبت کے لئے بھی ان کا استعمال کرتے ہیں اور کسی بھی زبان میں اہمیت اہل زبان کے محاورات اور استعمالات ہی کو حاصل ہوتی ہے اس لئے نعت پاک میں ان کا استعمال قطعاً درست ہے اور اس میں کسی طرح کی بے ادبی اور شرعی قباحت نہیں (ماہ نامہ اشرفیہ ستمبر ٢٠٠٠ مبارکپور اشرفیہ ، ص٤٨، ٤٩)”۔ اھ واللہ تعالیٰ ورسولہ ﷺ اعلم بالصواب۔

کتبہ محمد صدام حسین برکاتی فیضی
صدر میرانی دار الافتاء وشیخ الحدیث جامعہ فیضان اشرف رئیس العلوم اشرف نگر کھمبات شریف گجرات انڈیا۔
٢٢ ربیع الثانی ٤٤٤١؁ھ مطابق ١٨ نومبر ٢٢٠٢؁ء