طلاق کے مسائل

غصہ کی طلاق کا حکم؟

بیوی طلاق سے راضی نہ ہو یا برادری والے طلاق نافذ نہ کریں تو۔۔۔؟

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی کو غصہ کی حالت میں ایک ساتھ سات طلاق دے دیا بعد میں یہ مسئلہ بکر کے سامنے پیش ہوا ( بکر ایک سنی عالمِ دین ہے ) بکر نے جواب دیا کہ طلاق واقع نہیں ہوگی اور بکر نے ان میاں بیوی کے درمیان صلح بھی کروا دیا جب بکر سے پوچھا گیا کہ طلاق واقع کیوں نہیں ہوگی جب کہ اس نے ایک ساتھ سات طلاق دے دیا ہے تو بکر نے چند دلائل پیش کئے (1) پہلی دلیل یہ دیا کہ انتہائی غصے کی حالت میں طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی (2) دوسری دلیل یہ دیا کہ طلاق اس وقت تک واقع نہیں ہوتی جب تک کہ قاضئ شرع یا پھر سماج اور برادری کے بڑے اور معزز لوگ اس کا حکم نافذ نہ کرے (3) تیسری دلیل یہ دیا کہ جس طرح ایجاب وقبول میں میاں بیوی کی رضامندی کا ہونا ضروری ہے یوں ہی طلاق کیلئے بھی میاں بیوی کی رضامندی کا ہونا ضروری ہے
تو اب علمائے کرام سے دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا بکر کا جواب اور دلائل صحیح ہے ؟ یا پھر زید کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر طلاق واقع ہوگی تو کونسی طلاق پڑے گی ؟ برائے کرم قرآن واحادیث کی روشنی میں جلد سے جلد مدلل ومفصل جواب عنایت فرمائیں!
المسفتی محمد یونس یار علوی گجرات


بسم ﷲ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام و رحمۃاللہ تعالیٰ وبرکاتہ
الجواب-بعون الملک الوھاب- غصہ اس درجہ شدت کا ہو کہ حدجنون تک پہنچا دے تو طلاق نہ ہوگی اور یہ کہ غصہ اس شدت پر تھا، یا تو گواہان عادل سے ثابت ہو یا وہ اس کا دعوی کرے اور اس کی یہ عادت معہود و معروف ہو تو قسم کے ساتھ اس کا قول مان لیں گے ورنہ مجرد دعوی معتبر نہیں، یوں تو ہر شخص اس کا دعویٰ کرے اور غصہ کی طلاق واقع ہی نہ ہو حالانکہ اکثر طلاق غصہ ہی میں دی جاتی ہے۔ ایسا ہی فتاوی رضویہ جدید، ج١٢، ص٣٧٨، پر ہے (کتاب الطلاق، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں: "الدهش من اقسام الجنون فلا يقع واذا كان يعتاده بان عرف منه الدهش مرة يصدق بلا برهان ” اھ (ردالمحتار علی الدر المختار ، ج٤، ص٤٥٢، کتاب الطلاق، مطلب فی طلاق المدھوش، دار عالم الکتب الریاض)
لہذا صورت مسئولہ میں اگر طلاق دیتے وقت زید کا غصہ اس درجہ شدت کا تھا کہ حد جنون کو پہنچادے تو کوئی طلاق واقع نہ ہوئی۔ اور یہ کہ غصہ اس شدت پر تھا، یا تو گواہان عادل سے ثابت ہو یا وہ اس کا دعوی کرے اور اس کی یہ عادت معہود و معروف ہو تو قسم کے ساتھ اس کا قول مان لیں گے۔
ہاں غصہ اس حد کا نہ ہو تو تین طلاقیں واقع ہوگئیں اب بے حلالہ رجعت نہیں کرسکتا۔
رہا بکر کا یہ کہنا کہ طلاق قاضی و برادری والوں کے نافذ کرنے یا بیوی کے قبول کرنے پر ہوگی یہ نری جہالت ہے وجہ یہ کہ طلاق کاحق صرف شوہر کو ہے اس نے دیدی تو ہوگئی اس میں بیوی کی رضا یا قاضی و برادری والوں کے نفاذ کا کچھ دخل نہیں اور اسے نکاح پر قیاس کرنا درست نہیں کہ اس میں دونوں کو اپنے نفسوں کا حق حاصل ہے جبکہ طلاق کا حق صرف شوہر کو ہے بیوی کوبالکل نہیں۔
قرآن عظیم میں ہے:” بِیَدِہٖ عُقۡدَۃُ النِّکَاحِ ” (سورۃ البقرۃ: ٢٣٧)
یعنی اسی (خاوند) کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔
حدیث شریف میں ہے: ” إِنَّمَا الطَّلَاقُ لِمَنْ أَخَذَ بِالسَّاقِ ".
طلاق صرف وہی دے سکتاہے جو جماع کامالک ہے۔ واللہ تعالیٰ ورسولہ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اعلم بالصواب

کتبہ گدائے حضور رئیس ملت محمد صدام حسین برکاتی فیضی میرانی
خادم میرانی دار الافتاء جامعہ فیضان اشرف رئیس العلوم اشرف نگر کھمبات شریف گجرات انڈیا۔
٢٨ ذی الحجہ ١٤٤٣ مطابق ٢٨ جولائی ٢٠٢٢ء