مقدمات و دعوے کا بیان نکاح کے مسائل

حلالہ میں دو بھائیوں کی گواہی سے نکاح ہوا تو؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ ہندہ کا تین طلاق ہوچکا ہے اب اس کا شوہر اس کے لئے غیر ہوگیا ہے اب اگر اس کے نکاح میں جانا چاہے تو حلالہ شرط ہے جب ہندہ کا تین حیض مکمل ہوا تو اس کا نکاح ایک غیر محرم سے ہوا نکاح میں اس کے دونوں بھائی گواہ تھے اور ایک حافظ صاحب وکیل تھے پھر نکاح کے دوسرے دن اس لڑکے نے ہندہ کو طلاق دیدیا اور اس کے ذمہ جو نان و نفقہ تھا اس کے بدلے ہندہ کو ٢٠ہزار نقد دیا لیکن لڑکے کے راز کو چھپانے کے لئے اس کا پتہ غلط دیا گیا مقام نکاح غلط دیا گیا کیا یہ نکاح درست ہوا یا نہیں۔
اور جب ہندہ کے بیٹے نے نکاح نامہ اپنی جماعت والوں کو دیا تو انہوں نے اس نکاح نامے کو فرضی بتایا اور کہا کہ اس میں تو کوئی بھی دستخط کر سکتا ہے ان کے بھائی بھی فرضی دستخط کردیئے ہوں گے اور کہا نکاح خواں کو بلایا جائے اور اس لڑکے کو بھی بلایا جائے جس کے ساتھ نکاح ہوا یہ جماعت والوں کا کہنا ہے ان کا ان لوگوں کو طلب کرنا درست ہے یا نہیں شریعت کی روشنی میں جواب دیجئے۔
المستفتی: عبداللہ


بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
الجواب -بعون الملک الوھاب- نکاح اعلانیہ ہونا چاہئے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
فَصْلُ مَا بَيْنَ الْحَرَامِ وَالْحَلَالِ الدُّفُّ وَالصَّوْتُ (جامع الترمذی ابوب النکاح باب ماجاء فی اعلان النکاح رقم الحديث:١٠٨٨)
یعنی: حلال اور حرام کے درمیان فرق نکاح میں اعلان اور دف بجانے کا ہے۔
فتاوی رضویہ میں اسی کی شرح میں بحوالۂ عمدۃ القاری ہے:
منھا الضرب بالدف بحضرۃ الشارع الملۃ ومبین الحل من الحرمۃ صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم واعلان النکاح بالدف والغناء المباح فرقا بینہ وبین مایستتر بہ من السفاح” اھ (ج٢٣، ص٢٨٦، رسالہ ھادی الناس فی رسوم الاعراس، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
یعنی ان (فوائد اعلان نکاح) میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ شارع ملت اور حلت وحرمت ظاہر کرنے والے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی موجودگی میں دف بجانا اور دف بجاکر ، مباح گیت گا کر اعلان نکاح کرنا نکاح اورخفیہ بدکاری (زنا) کے درمیان فرق واضح کرنا ہے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں نکاح علی الاعلان کرنا چاہئے تھا اور جس لڑکے سے نکاح ہوا اس کا پتہ اور مقام نکاح صحیح بتانا تھا غلط بتانا جھوٹ ہوا جس کی وجہ سے توبہ کرنا لازم ہے البتہ لڑکی کے دونوں بھائی اگر فاسق معلن نہ ہوں تو ان کی گواہی سے نکاح ثابت ہوجائے گا کہ بھائی کی گواہی بہن کے حق میں مقبول ہے۔
اعلی حضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریر فرمایا:
"بھائی کی گواہی بہن کے حق میں شرعاً مقبول ہے” اھ (فتاوی رضویہ جدید ج١٢، ص٤٣٢ ، کتاب الطلاق ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور) واللہ تعالیٰ ورسولہﷺ اعلم بالصواب۔

کتبہ: محمد صدام حسین برکاتی فیضی
٢٢ صفر المظفر ١٤٤٦ھ‌ مطابق ٢٨ اگست ٢٠٢٤ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے