تحقیق

حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کی زبان پر کلمہ جاری نہ ہونے والے واقعہ کی تحقیق

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
امید ہے خیر و عافیت سے ہوں گے۔
حضرت علقمہ کی زبان پر آخری وقت میں کلمہ جاری نہ ہونے والے واقعہ کی تحقیق در کار ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔
المستفتی: سید محمد بشیر قادری، کھیر سرا، کچھ، گجرات۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب کافی تلاش و جستجو کے بعد بھی مجھے کوئی ایسا واقعہ یا روایت نہیں ملی، جس میں حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کی زبان پر آخری وقت میں کلمہ جاری نہ ہونے کا ذکر ہو۔البتہ شعب الإیمان وغیرہ میں ایک روایت ہے جس میں ایک لڑکے کا ذکر ہے کہ ماں کی نافرمانی کی وجہ سے اس کی زبان پر آخری وقت میں کلمہ طیبہ جاری نہیں ہورہا تھا، جب اس کی خبر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دی گئی؛ تو آپ تشریف لائے اور اس کی ماں کو اس سے راضی کرایا اور پھر آپ نے اس لڑکے کو کلمہ پڑھنے کا حکم دیا؛ تو اب اس نے با آسانی کلمہ پڑھ دیا۔
شعب الإیمان میں ہے:

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، نا أَبُوعُمَرَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ الزَّاهِدُ صَاحِبُ ثَعْلَبٍ بِبَغْدَادَ، نا مُوسَى بْنُ سَهْلٍ الْمُوسِيُّ، نا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أنا فَائِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ هَهُنَا غُلَامًا قَدِ احْتُضِرَ يُقَالُ لَهُ قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ فَلَا يَسْتَطِيعَ أَنْ يَقُولَهَا، قَالَ: ((أَلَيْسَ قَدْ كَانَ يَقُولُهَا فِي حَيَاتِهِ؟)) قَالُوا: بَلَى، قَالَ: ((فَمَا مَنَعَهُ مِنْهَا عِنْدَ مَوْتِهِ؟)) قَالَ: فَنَهَضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَهَضْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَى الْغُلَامَ، فَقَالَ: ((يَا غُلَامُ قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ)) قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقُولَهَا، قَالَ: ((وَلِمَ؟)) قَالَ: لِعُقُوقِ وَالِدَتِي، قَالَ: ((أَحَيَّةٌ هِيَ؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ((أَرْسِلُوا إِلَيْهَا)) فَأَرْسَلُوا إِلَيْهَا فَجَاءَتْ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((ابْنُكِ هُوَ؟)) قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: ((أَرَأَيْتِ لَوْ أَنَّ نَارًا أُجِّجَتْ فَقِيلَ لَكَ: إِنْ لَمْ تَشْفَعِي لَهُ قَذَفْنَاهُ فِي هَذِهِ النَّارِ)) قَالَتْ: إِذًا كُنْتُ أَشْفَعُ لَهُ، قَالَ: ((فَأَشْهِدِي اللهَ، وَأَشْهِدِينَا مَعَكَ بِأَنَّكَ قَدْ رَضِيتِ)) قَالَتْ: قَدْ رَضِيتُ عَنِ ابْنِي، قَالَ: ((يَا غُلَامُ، قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ)) فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ)) تَفَرَّدَ بِهِ فَائِدٌ أَبُو الْوَرْقَاءِ، وَلَيْسَ بِالْقَوِيِّ۔

(شعب الإیمان، امام بیہقی، ج۱۰ص۲۹۰، رقم: ۷۵۰۸، ط: مکتبۃ الرشد، ریاض)

اس حدیث میں جس لڑکے کا ذکر ہے، اس کا نام یہاں مذکور نہیں اور تلاش بسیار کے باوجود، نہ ہی اس لڑکے کی کسی کتاب سے تعیین ہوسکی۔
مندرجہ بالا حدیث ضعیف ہے مگر ترہیب کے باب میں اسے ذکر کیا جاسکتا ہے؛ کیوں کہ ترغیب و ترہیب میں ضعیف حدیث مقبول ہوتی ہے، تفصیل کے لیے میرا مضمون: ’حدیث ضعیف محدثین و ناقدین کی نظر میں‘ مطالعہ کریں۔
و اللہ تعالی أعلم……………

کتبہ
ابوعاتکہ ازہار احمد امجدی ازہری مصباحی غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعہ حدیث، ایم اے
خادم مرکز تربیت افتا و خانقاہ امجدیہ، اوجھاگنج، بستی، یوپی، انڈیا
۳؍ ذی الحجۃ ۱۴۴۵ھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے