السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتی صاحب قبلہ اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہند وپاک کی سرزمین سے جو ورکر کام کرنے کے لیے مسجد حرام میں جاتے ہیں وہاں پر ان کا کام قالین بچھانا اور ان کو اٹھانا ہوتا ہے شدید گرمی کی وجہ سے جب چہرہ اور گلا وغیرہ خشک ہوجاتا ہے تو ملازمین زمزم کے پانی سے اپنے سروں کو گیلا کرتے ہیں اپنے پیر پر پانی ڈالتے ہیں تو کیا پیر پر زمزم کا پانی ڈالنا مسجد حرام میں اور سر پر ڈالنا جسم پر بہانہ درست ہے اور اگر درست ہے تو زمزم شریف کا ادب کرنا کیا مسجد حرام کے حدود کے باہر سے شروع ہوتا ہے جواب عنایت فرمائیں؟
المستفتی: عرفان بھائی کرناٹک
بسم ﷲ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتی
الجواب بعون الملک الوھاب۔
فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ حصول برکت کے لیے آب زمزم کو اعضاء بدن پر لگانا بلکہ اس سے وضوء اور غسل کرنا بھی جائز ہے جبکہ لگانے والے باوضوء اور پاک ہوں خواہ حدود حرم میں ہوں یا حدود حرم سے باہر رأس المحققين علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ”شرب من ماء زمزم” کے تحت فرماتے ہیں”ماسحا بہ وجھہ ورأسہ وجسدہ صابا منہ علی جسدہ ان امکن”اھ(رد المحتار ج٣ص٦٢٣،کتاب الحج، مطلب فی طواف الصدر)
اور جب حصول برکت کے لیے آب زمزم سے تمام اعضاء بدن کا دھلنا جائز ہے حصول ٹھنڈک کے لیے بھی جائز ہی ہوگا اگرچہ پاؤں پر ڈالے کما فی الوضوء والغسل.
لہذا حرم کے ورکروں کا اس طرح آب زمزم سے تبریک وتبرید حاصل کرنا درست ہے ہاں ان میں جو بے وضوء ہوں ان کے لیے استعمال کرنا درست نہیں ممنوع ہے۔
طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے”یجوز الاغتسال والتؤضو بماء زمزم ان کان علی طھارۃ للتبرک فلا ینبغی ان یغتسل بہ جنب ولا محدث ولا فی مکان نجس ولایستنجی بہ ولایزال بہ نجاسۃ حقیقیۃ وعن بغض العلماء تحریم ذالک”اھ(ص٢٢،کتاب الطھارۃ)
المسلک المتقسط فی منسک المتوسط مسمی بہ لباب المناسک میں ہے” ویجوز الاغتسال والتؤضو بماء زمزم ولایکرہ عند الثلاثۃ خلافا لأحمد علی وجہ التبرک ای لابأس بما ذکر الا انہ ینبغی ان یستعملہ علی قصد التبرک بالمسح او الغسل او التجدید فی الوضوء ولا یستعمل الا علی شئی طاھر فلا ینبغی ان یغسل بہ ثوب نجس ولا ان یغتسل بہ جنب ولامحدث ولا فی مکان نجس ویکرہ الاستنجاء بہ وکذا ازالۃ النجاسۃ الحقیقیۃ من ثوبہ او بدنہ حتی ذکر بعض العلماء تحریم ذالک ویقال انہ استنجی بہ بعض الناس فحدث بہ الباسور”اھ (ص٦٩٩، کتاب الحج،باب المتفرقات،فصل ویستحب الاکثار من شرب ماء زمزم) یعنی ائمہ ثلاثہ کے نزدیک بطور برکت آب زمزم سے وضوء اور غسل کرنا جائز ہے مکروہ نہیں اس میں امام احمد ابن حنبل کا اختلاف ہے آب زمزم سے وضوء اور غسل کرنا اگرچہ جائز ہے مگر بہتر یہ ہے کہ بنیت تبرک استعمال کرے خواہ مسح میں استعمال کرے یا اعضاء کے دھلنے میں یا تجدید وضوء میں اور پاک ہی چیز پر استعمال کرے لہذا اس سے نجس کپڑا دھلنا جائز نہیں اور نہ جنبی اور محدث کا(کسی اعضاء کو) دھلنا اور غسل کرنا اور نہ ہی نجس جگہ بہانا اور اس سے استنجاء کرنا اور اسی طرح کپڑے اور بدن سے نجاست حقیقیہ کا زائل کرنا مکروہ ہے یہاں تک کہ بعض علماء کرام نے حرام قراردیا ہے اور کہاجاتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اس سے استنجاء کرلیا تو انہیں بواسیر ہوگیا۔ وﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:محمد ارشد حسین الفیضی
٢٦رمضان المبارک ١٤٤٣ھ