روزہ

روزہ توڑ کر خون دینا کیسا ہے

السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی کی جان بچانے کے لیے روزہ توڑ کر خون دینا کیسا ہے؟ جبکہ وہ ہندو دھرم سے تعلق رکھتا ہو۔ بینوا و توجروا
المستفتی:محمد وسیم اکرم رضوی، راجستھان انڈیا


بسم ﷲ الرحمن الرحیم
وعليكم السلام و رحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب۔
خون نکلوانے اور دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہاں اگر خون نکلوانے سے اتنی کمزوری کا اندیشہ ہو کہ روزہ پورا نہ کرسکے گا تو خون نکلوانا مکروہ ہے۔
صحیح البخاری میں ہے”قال ابن عباس وعکرمۃ:الصوم مما دخل ولیس مما خرج” اھ (ج١ص٢٦٠،کتاب الصوم،باب الحجامۃ والقئی للصائم، مکتبہ رحمانیہ) حضرتِ ابن عباس اور حضرت عکرمہ رضی ﷲ عنھما نے فرمایا کہ روزہ اس سے ٹوٹتا ہے جو اندر جائے اور اس سے نہیں ٹوٹتا جو باہر نکلے۔
مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں”ان دونوں تعلیقوں کو امام ابوبکر بن شیبہ نے موصولا ذکر کیا ہے اس کا مضمون یہ ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرتِ عکرمہ رضی ﷲ عنھما نے روزہ کی حالت میں پچھنا لگوانے کے بارے میں یہ فرمایا” اھ(ج٣ص٣٤١، کتاب الصوم،باب الحجامۃ والقئی للصائم)
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں” ان کلا من الکحل والدھن غیر مکروہ وکذا الحجامۃ الا اذا کانت تضعفہ عن الصوم”اھ(رد المحتار ج٣ ص٤٢١، کتاب الصوم، مطلب:یکرہ السھر اذا خاف فوت الصبح)
فتاویٰ ھندیہ میں ہے”ولابأس بالحجامۃ ان امن علی نفسہ الضعف اما اذا خاف فانہ مکروہ وینبغی لہ ان یؤخر الی وقت الغروب” اھ(ج١ص١٩٩۔٢٠٠،کتاب الصوم،الباب الثالث فیما یکرہ للصائم وما لا یکرہ) یعنی اگر کمزوری کا اندیشہ نہ ہو تو پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں اور اگر کمزوری کا اندیشہ ہو تو مکروہ ہے اس لیے بہتر ہے کہ غروب آفتاب کے بعد پچھنے لگوائے۔
لہذا صورت مستفسرہ میں جب خون نکلوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو اگر کسی نے خون نکلوانے سے پہلے ہی عمداً روزہ توڑ دیا(وہ بھی ایک کافر کے لیے یہ اور بھی شنیع ہے) تو اس پر قضا وکفارہ دونوں لازم ہوگا۔ واﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ: محمد ارشد حسین الفیضی
٢٠ رمضان المبارک ١٤٤٣ھ